جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ کے پرنسپل پروفیسر اصغر سودائی کی تاریخ ساز نظم’’ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ‘‘ نے برصغیر کے مسلمانوں کی روح میں نئی تڑپ اور دلوں کو گرما دیا یہی وہ ملی ترانہ تھا جس نے سرحد اسمبلی کے ممبران کو پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور کرانے میں مدد دی۔ ہمارے ’’بڑوں‘‘ نے دو قومی نظریے اور نظریہ پاکستان کی آبیاری کا فریضہ ذمہ داری سے ادا کیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی سرپرستی میں ہندوں اور سکھوں کے مظالم میں بھی قائداعظم کی عدیم المثال قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قدم بڑھتے رہے83 سالہ پروفیسر راجہ محمد اسلم خان یوم پاکستان کی مناسبت سے گفتگو کرتے ہوئے رک گئے… ذرا توقف کے بعد بولے! کشمیریوں اور طالبان کی فاتحانہ جدوجہد اور پیش قدمی نے ثابت کر دیا کہ نظریات بندوق کے سائے اور بارود کی دیواروں سے روکے نہیں جاتے! راولپنڈی‘ اسلام آباد اور گجرات کے تعلیمی ‘ تدریسی اور عوامی حلقوں میں ’’ینگ اولڈ مین‘‘ پروفیسرراجہ اسلم کی جہد مسلسل معتبر حوالہ کا درجہ رکھتی ہے۔ 1968ء سے شروع ہونے والا لیکچرر شپ کا عہد 1998 میں گورنمنٹ اصغر مال کالج سے تمام ہوا۔ تین عشروں پر متعین تدریسی زندگی سے انہوں نے وطن اوراہل وطن کی جو خدمت کی وہ عہد زریں آب زر سے لکھنے کے متراف ہے۔ پروفیسر راجہ محمد اسلم چپ راجپوت کونسل کے سرپرست اعلی ‘ تنظیم الحق پاکستان کے چیئرمین اور چیئرمین پاکستان پنشنرز فورم کیساتھ وہ آل پاکستان پروفیسرز اینڈ لیکچرز ایسوسی ایشن کے بانیوں میں شامل ہیں۔ 14 اگست 1947ء کو ان کی عمر چھ برس تھی وہ کلاس ٹو میں زیر تعلیم تھے جنگ دوم ‘ مسئلہ کشمیر اور سقوط ڈھاکہ کی بابت یادیں اور باتیں ان کی زبانی پڑھیے… میرے والد راجہ پہلوان خان رائل فیملی سے متعلق تھے دونوں چچا خان محمد اور عدالت خان کو برطانوی فوج نے جبراً عراق بجھوا دیا والد محترم برما محاذ پرسرگرم تھے۔ یہ جنگ دوم کے حالات تھے، برما سے واپسی پر والد محترم ٹی بی کا شکار ہوگئے اور جولائی 1944ء کو انتقال فرماگئے۔ ہمارے اجداد جموں کے قریبی علاقے سے ہجرت کرکے گجرات پہنچے۔ تقسیم کے وقت گلاب سنگھ ڈوگر کے پوتے کرن سنگھ نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا یہ فیصلہ ہندوں کو ایک آنکھ نہیں بھایا چنانچہ انہوں نے کشمیری مسلمانوں کو تنگ کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا۔ 3 جون 1947ء کو برطانوی پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کے مطابق ہندوستان نے دو حصوں میں تقسیم ہونا تھا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کے مشترکہ گورنر جنرل بنیں قائداعظم محمد علی جناح نے اس تجویز کی مخالفت کی ،اس وقت ہندوستانی فوج کے سربراہ جنرل ویول تھے۔ قائداعظم کا موقف تھا کہ جس طرح بھارت اور پاکستان کی فوجوں کا ایک آرمی چیف نہیں ہوسکتا اسی طرح دونوں ممالک کا گورنر جنرل ایک کیسے ہوسکتا ہے؟ بانی پاکستانؒ کے انکار پر ہندووں اور سکھوں نے واسرائے ہند کی سرپرستی میں مسلمانوں پرمظالم کے پہاڑ توڑے ۔حیدر آباد دکن کے ساتھ نانصافی اس ظلم وناانصافی کی ایک مثال ہے۔
مشرقی پاکستان کی علحیدگی کی کئی وجوہ ہیں؟ پہلی اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم دانستہ بنگالیوں کو خود سے دور کرنے کا سلسلہ دراز کرتے رہے 1905ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا جنم خواجہ ناظم الدین کے گھر ہوا ،خواجہ ناظم الدین کے نانا نواب آف ڈھاکہ سر سلیم اللہ نے مسلمانوں کی سرپرستی اور آل انڈیا مسلم لیگ کے لیے جو خدمات انجام دیں وہ کسی سے ڈھکی چھپکی نہیں!ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ بنگالیوں کی تھی اور پاکستان بھی بنگالیوں کا تھا ہم نے تعصب کی دیواریں اتنی بلند کرلیں کہ وہ دور اور مسلسل دور ہوتے گئے بالآخر سترہ دسمبر 1971ء کا سیاہ دن آہی گیا1964ء اور 1968 کے دوران مجھے دوبار ڈھاکہ وزٹ کا موقع مل،ایک بنگالی صنعت کار نے بتایا کہ اگر بھارت بنگلہ دیش بنانے کی سازش میں کامیاب ہوگیا تو پھر مسلمان سرمایہ داروں پر ہندو انویسٹر غالب آجائیں گے۔ہماری پسماندگی کی وجہ شعبہ تعلیم اور نظام تدریس میں نقائص کا ہونا ہے۔ ہم نظریات اور اقدار نئی نسل میں منتقل نہیں کرسکے جس کا نتیجہ آج بے راہ روی کے سیلاب کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ یہاں جوگروہ حکمرانی کررہا ہے اس کا تعلق عوام اور عوامی مسائل سے نہیں !آج بھی ہندوستان سازش سے باز نہیں آیا میرا خیال ہے کہ 2023 میں بھارت سے ہماری فیصلہ کن جنگ ہونی ہے یہی وہ غزوہ ہے جس کی پیشن گوئی غزوہ ہند کے نام سے ہوئی۔ قرارداد مقاصد کو ذرا پڑھیں! صاف لکھا ہے کہ یہاں قرآن وسنتؐ سے خلاف قانون منظور نہیں ہوگا۔ محبان پاکستان سخت پریشان ہیں کہ پارلیمنٹ نے گھریلو تشدد کے خلاف جو قانون منظور کیا اس کی کئی شقیں اسلام سے متصادم ہیں! تنظیم الاخوان کے سربراہ اکرم اعوانؒ کہا کرتے تھے کہ حصول پاکستان ہماری منزل نہیں تھا یہ منزل تک پہنچنے کا ذریعہ تھا ہم نے پاکستان حاصل کرکے سمجھ لیا بس مشن مکمل ہوگیا !کاش اہل اقتدار پاکستان کی تعلیمی اور معاشی مضبوطی کے لیے مشترکہ اقدامات کرتے رہتے تو آج پاکستان یوں گھمبیر مسائل کا شکار نہ ہوتا۔ حکومت پیشنرز کا خیال کرے بزرگوں کو اہمیت دے اور ریٹائرڈ افراد سے ہر سطح پر مشاورت کرے تو درپیش مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے