معزز قارئین! آج 14 اگست ہے ۔ آج اہلِ پاکستان (ہم سب) پاکستان کا75 واں ’’یوم آزادی منا رہے ہیں ۔ 14 اگست 1947ء کو ،ہمارے بزرگوں نے قائداعظمؒ کی قیادت اور’’ آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ کے پرچم تلے جدوجہد کے بعد انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی۔ اِس سے قبل ہندوئوں کی دہشت گرد تنظیم ’’ راشٹر سیوم سیوک سنگھ ‘‘ (R.S.S.S) ، متعصب ہندو جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ سکھوں کے مسلح جتھوں اور دوسری غیر مسلم تنظیموں نے مختلف صوبوں میں 18 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام کِیا اور 95 ہزار سے زیادہ مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُن کی آبرو ریزی کی ۔ مشرقی ( اب بھارتی ) پنجاب میں سِکھوں نے 10 لاکھ مسلمانوں کو شہید کِیا اور 55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُنکی عصمت دری کی۔ ہمارا خاندان مشرقی پنجاب کی سابق سِکھ ریاست ’’نابھہ ‘‘ میں آباد تھا ۔ تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ ) کارکن میرے والد صاحب ، رانا فضل محمد چوہان’’لٹھ باز‘‘ تھے اوروہ "Muslim National Guards" کو ’’ لٹھ بازی‘‘ ( یعنی لاٹھیوںسے لڑنے کا فن ) سِکھایا کرتے تھے ۔ پھر ہمارا خاندان مشرقی پنجاب کی مسلمان ریاست ’’مالیر کوٹلہ‘‘ منتقل ہوگیا تھا۔
نواب آف مالیر کوٹلہ کے فوجی دستے کی نگرانی میں دو اڑھائی سو مسافروں (مہاجروں) کی ٹرین قصور کیلئے روانہ ہُوئی توہمارا خاندان بھی اُس ٹرین میں سوار تھا ۔ راستے میں ہر ریلوے سٹیشن پر کرپانیں لہراتے اور ’’ست سری اکال، جو بولے سونہال‘‘ کے نعرے لگاتے ہُوئے سِکھوں نے ٹرین کو روکنے کی کوشش کی لیکن ٹرین کے محافظ فوجی دستے کی فائرنگ سے اُنہیں ٹرین پر حملہ کرنے کی جُرأت نہیں ہُوئی۔ فیروز پور سٹیشن سے چار میل دَور قصور سے پہلے ٹرین کے ڈرائیور کو ٹرین روکنا پڑی کیوں کہ اُس سے آگے سِکھوں نے ریل کی پٹڑی کو اُکھاڑ دِیا تھا۔ ٹرین کے محافظوں نے تمام مسافروں کو ایک کھلے میدان میں جمع کر لِیا تھا ۔ مغرب کا وقت ہو چکا تھا ۔ اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا ۔ سخت طیش میں نعرے لگاتے ہُوئے سِکھوں کے کئی جتھے ہمارے قریب آ رہے تھے کہ اچانک اچانک ٹرکوں پر سوار ’’بلوچ رجمنٹ ‘‘ (Baloch Regiment) کے افسران اور جوان ’’ نعرۂ تکبیر ۔ اللہ اُکبر‘‘ کی گونج میں وہاں پہنچ گئے۔ سِکھوں کے جتھّے کو ہمارے قریب آنے کی جُرأت نہ ہُوئی۔ اُس وقت میری عُمر تقریباً 11 سال تھی جب مَیں نے پاکستان کی فوج ۔ اپنی محسن فوج ۔ اپنی بلوچ رؔجمنٹ کو قریب سے دیکھا ۔
’’ریاست پٹیالہؔ!‘‘
ریاست پٹیالہ ؔکے آنجہانی راجا یادویندر سنگھ (بھارتی پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کے پِتا / والد ) کی نگرانی میں سِکھوں نے ریاست پٹیالہ ؔ کے مختلف علاقوں میں اڑھائی لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کِیا تھا اور لا تعداد مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی تھی۔ تحریک ِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن جسٹس جمیل حسین رضوی (مرحوم) ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے قائدین میں سے تھے جنہوں نے پٹیالہ کے مسلمانوں کو سِکھوں کی دہشتگردی سے بچانے کیلئے اہم کردار ادا کِیا تھا۔ رضوی صاحب کے صاحبزادے سینئر ایڈووکیٹ سیّد ضیاء حیدر رضوی بھی اپنے والد ِ محترم کی طرح فلاحی کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں ۔
تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن درگاہِ حضرت مجدد الف ثانی ؒ سرہند شریف کے قاضی ظہور اُلدّین (مرحوم) نے بھی ریاست پٹیالہ کے قریہ قریہ جا کر قائداعظمؒ اور مسلم لیگ کے پیغام کو مختصر معنوں میں لوگوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کِیا۔ قاضی صاحب ، نامور صحافی برادرِ محترم جمیل اطہر قاضی کے چچا تھے۔ جمیل اطہر صاحب بھی اپنے چچا کی طرح نظریۂ پاکستان کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔
’’ ضلع امرتسر!‘‘
معزز قارئین! آپ نے 12 جون کو’’ قائداعظمؒ کے سپاہیؔ، سراپا شفقت ؔ ، چاچا بختاوریؔ !‘‘ (امرتسری ) کے بارے میں میرا کالم پڑھا ہوگا جس میں اُنہوں نے ضلع امرتسر کے تحریک پاکستان کے کئی نامور کارکنوں کا تذکرہ کِیا تھا۔ خاص طور پر تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ ) کارکن ڈاکٹر سیّد علی محمد شاہ امرتسری اور (چیئرمین "P.E.M.R.A" پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ کے والد محترم )مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کا ۔ بیگ صاحب کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھا۔ مَیں اپنے کالموں میں نامور قانون دان اور سیاستدان ملک حامد سرفراز (مرحوم) امرتسری کا کئی بار تذکرہ کر چکا ہُوں تحریک پاکستان کے نامور کارکن ، میرے ایک لہوری دوست رانا عامر امین کے سُسر ( میرے بزرگ ) جناب عبداُلرشید مُغل صاحب جب بھی نئی نسل سے تحریک پاکستان کی داستان بیان کرتے ہیں تو اُن کا چہرہ روشن ہو جاتا ہے ۔
’’ شہدائے پاک فوج!‘‘
معزز قارئین! مَیں فوجی آمروں کی بات نہیں کرتا۔ مَیں تو آج 14 اگست کو ’’شہدائے تحریک پاکستان ‘‘ اورپاک فوج کے اُن شہیدوں کو بھی سلام پیش کر رہا ہُوں جو ہر دَور میں پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرتے یا اندرون ملک دہشتگردوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہو جاتے ہیں ۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران مَیں نے دو ملّی نغمے لکھے ۔ ایک نغمہ تو ہر روز ریڈیو پاکستان سے نشر ہو رہا تھا ۔ جنوری 1999ء میں میرے دوست سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سیّد انور محمود گیلانی ’’ ریڈیو پاکستان ‘‘ کے ڈائریکٹر جنرل تھے ۔ اُنہوں نے کئی شاعروں کے نغموں/ترانوں کو از سر نو ریکارڈ کروایا۔ میرا نغمہ بھی جسے پٹیالہ گھرانہ کے نامور گلوکار جناب حامد علی خان نے گایا۔ نغمے کا عنوان ، مطلع اورچار بند یوں تھے/ ہیں…
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
…O…
زُہرہ نگاروں، سِینہ فگاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
…O…
یوں حُسنِ لازوال سے، رَوشن ہیں بستیاں!
جیسے کہ آسمان سے ،اُتری ہو کہکشاں!
تیرے فلک کے ،چاند ستاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
…O…
مٹی کا تری رنگ ، زَر و سیم کی طرح!
دریا رَواں ہیں ،کوثر و تسنیم کی طرح!
جنت نشان ،مست نظاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
…O…
دُنیا میں بے مثال ہیں ، اربابِ فن ترے!
ہر بار فتح یاب ہُوئے ، صف شکن ترے!
شاہ راہِ حق کے شاہ سواروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
…O…
پھیلے ہُوئے ہیں ، ہر سُو، وفائوں کے سِلسلے!
مائوں کی پر خُلوص دُعائوں کے سِلسلے!
مضبوط ، پائیدار ، سہاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
…O…