1857کی جنگ آزادی کے بعد مسلمان بطور ایک قوم ختم ہو تے جا رہے تھے ۔انگریز جنگ آزادی کی تمام تر ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کر رہا تھا ۔ جنگ آزادی میں ہندوؤں نے بھی شرکت کی لیکن انگریزوں نے زیادہ تر مسلمانوں پر ہی اپنا عتاب نازل کیا کیونکہ ان کے خیال میں مسلمان گذشتہ دور میں حکمران رہ چکے تھے اور انہوں نے ان سے اقتدار چھینا تھا ۔ان حالات میں مسلمانوں کو کسی ایسی شخصیت کی کمی محسوس ہو رہی تھی جو ان کی رہنمائی کرے ۔ایک طرف مسلما نوں کو سرسید احمد خان جیسی شخصیت ملی جنہوں نے اپنی علمی بصیرت سے نہ صرف انگریزوں کے دلوں میں مسلمانوں کے لیے نفرت کے جذبات کو کسی حد تک کم کر دیا بلکہ ان کو اس قابل بھی بنانے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ ہندوؤں کے مقابلے پر ترقی کرکے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔بقول مولوی عبدالحق ’’اگر سرسید کی زندگی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قصر پاکستان کی بنیاد یں رکھنے میں سب سے پہلی اینٹ اسی پیر مردن نے رکھی تھی‘‘تو دوسری جانب حضرت علامہ محمد اقبال کے تصور نے گمراہ اور بدحال مسلمانوں کو نشان منزل دے کر رسائی کے لیے نہ صرف وحدت ، افکار و عمل کا نسخہ کیمیا عطا فرمایا بلکہ حصول منزل کے لیے ایک رہبر اور رہنما بھی قوم کو دیا جو منزل مقصود تک لیجانے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔حضرت علامہ اقبال کی نظر انتخاب اس مرد برحق پر مرکوز ہوئی جو ہندو کی مکاری اور انگریزی کی عیاری کو نہ صرف سمجھتا تھا بلکہ ان سب سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت و اہلیت کا حامل تھا لہٰذا اقبال نے محمد علی جناح کو جو خط ارسال کیا اس میں یہ درج ہے’’ ہندوستان میں آپ ہی کی ذات ایسی ہے جسے قوم کو یہ امیدیں وابستہ کرنے کا حق حاصل ہے کہ مستقبل میں جو سیلاب آنے کا خدشہ ہے اس میں صرف آپ ہی قوم کی رہنمائی کر سکیں گے۔‘‘
قائداعظم نے مختصر سے عرصہ میں تمام اندرونی بیرونی دشمنوں کو چاروں شانیں چت کرکے مسلمانان ہند کو منزل مراد تک پہچانے کا وہ کارنامہ سرانجام دیا جس کی تاریخ انسانی میں مثال نہیں ملتی ۔ 14اگست 1947فتح مبین کا دن حصول منزل کے سنگ میل کا دن جو بڑی قربانیوں سے گزرنے کے بعد نصیب ہوا اور اس آزادی کے لیے ہمارے بزرگوں نے بڑی مصیبتیں جھیلیں ، جانیں قربان کیں ، عزتیں گنوائیں ، درندہ صفت سکھوں نے مسلمانوں کے دیہات پر حملہ کیا ، ان کے مردوں کا قتل ، بچوں کو نیزوں پر اچھالا اور عورتوں کی بے حرمتی کی۔زندہ لوگوں کو جلا ڈالا مگر اس ظلم و بربریت کے باوجود ہر زبان پر ایک ہی نعرہ رواں تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ۔
بغیر اس کے کہاں ممکن تھی شناخت میری
میرا ملک میرے شجرہ نسب کی طرح ہے
27نومبر 1947کو کراچی میں کل تعلیمی کانفرنس سے قائداعظم نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان کی ترقی کا انحصار زیادہ تر طرز تعلیم پر ہے ۔تعلیم کا مطلب محض مکتبی تعلیم نہیں ہوتا اور ہمارے ہاں تو مکتب کی تعلیم بھی خیر سے بہت ناقص اور کمزور ہے ۔ہمیں جو کچھ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے لوگوں کی توانائیوں کو ایک راہ پر لگائیں اور آنے والی نسلوں کے کردار کی تعبیر ابھی سے کریں۔اس امر کی فوری اور اشد ضرورت ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعلیم دی جائے کیونکہ اسی سے ہماری مستقبل کی معاشی زندگی کا معیار بلند ہو سکتا ہے۔حصول تعلیم کے بعد لوگوں کو تجارت ، کاروبار اور صنعت و حرفت میں داخل ہونا چاہئے ۔ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمیں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے جو اس میدان میں تیزی سے ترقی کر رہی ہے ۔مختصر یہ کہ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے کردار کی تشکیل و تعمیر کرنی ہے جس کا مطلب اعلیٰ اخلاق، دیانت ، شرافت ، قوم کی بے لوث خدمت اور ذمہ داری کا احساس ۔ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہ معاشی زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کے لیے پوری طرح تیار اہل اور آمادہ ہیںاور اس انداز میں کہ پاکستان کی شان اور وقار میں اضافہ ہو ۔
قارئین کرام۔ جدہ جہد آزادی کے بے شمار چہرے سامنے آتے ہیں جو فسادات کی نذر ہوگئے اور جن کے لہو سے اس وطن کی بنیادوں کو سیراب کیا گیا وہی شہداء اس وطن کے معمار ہیں جنہوں نے برصغیر کے غلام مسلمانوں کو ایک آزاد ملک عطا کیا ہم نے اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی خلیج عبور کی ہے اب ہمارا یہ فرض اولین ہے کہ اس ملک کی آزادی اور تحفظ کے لیے اتحاد و یگانگت کے جذبات کو تقویت دیں اور حضرت قائداعظم و علامہ اقبال کے فرمودات پر عمل پیرا ہوں اور اس مملکت خداداد کو اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنائیں۔