آج خاکسار حسین کی دوسری برسی بھی آ گئی‘کتنی دیر لگی؟ یہ تو میرے دل سے کوئی پوچھے کہ دن اور رات کیسے گزرے‘شوہر بیوی کا تعلق برابری کا ہوتا ہے اور اس برابری کے چکر میں لڑائی ضرور ہوتی ہے کبھی گرمی کبھی سردی ان حالات میں دل پگھل جاتے ہیں۔ وقت گزر جاتا ہے اور پتہ نہیں چلتا‘ ہماری گھریلو زندگی بہت ہم آہنگی کی تھی اگر ماں نے کچن ایکسپرٹ نہ بنایا‘ تو خاکسار نے بھی کوئی کام نہیں کرنے دیا… کہتے تھے میں نے تمہیں دنیاوی رکھ رکھاؤ سے کچھ نہیں دیا مگر میں تمہیں کچن اور صفائی کی طرف نہیں جانے دوں گا‘ اگر میں کالج سے آ کر سو جاتی تو یہ دونوں بچوں کو کھانا بنا کر کھلا دیتے۔ ان کامزاج آرٹیکٹ اور شاعرانہ تھا۔
موسیٰ رضا بھائی کے اکلوتے بیٹے تھے‘ مجھے بھی خدا نے اکلوتا بیٹا شہنام عطا کیا یہ دونوں کو بہت ہی پیار کرتے۔ کبھی بچوں کو ڈانٹا نہیں۔ مجھ سے اختلاف رائے اکثر ہو جاتا تھا کہتے تھے میاں بیوی میں ہلکی پھلکی جھڑپ نہ ہو تو پیار کا پتہ نہیں چلتا۔ سب کے دلدادہ‘ہمدرد‘ ہنس مکھ اور دوستوں کے دوست‘ آج خاکسار میرے ساتھ نہیں رہے۔ مجھے تنہائی کا عذاب دیکر چلے گئے۔ یہ 9 بہن بھائی تھے اب خدا سلامتی دے ایک بھائی غم خوار حسین حیات ہیں (اور بیمار ہیں)
پاکستان کے کونے کونے سے آج بھی افسوس کے پیغامات شہنام علی بیٹے کو مل رہے ہیں۔ اس وقت میں یادوں کے بھنو رمیں کبھی ڈولتی‘کبھی سنبھلتی لکھنے کے قابل ہوئی میرا خیال ہے یہ سب کچھ دنیا کے تمام انسانوں کے ساتھ ہوتا ہو گا‘ میرے اندر کی عورت بیوی بن کر کچھ اور طرح سے سوچنے لگ جاتی جہاں میں نے آنکھ کھولی وہاں اور میرے میاں کے گھر میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ سوچتی ہوں کس گھر میں ایسا ہوتا ہو گا کہ اگر ملازم کا ’’صرف موڈ خراب تو آج کھانا ہی نہیں پکے گا گویا آج ڈبل روٹی پر ہی رات گزرے گی۔
وہ کرسیوں پر بیٹھا سرائیکی فوک گانے سن رہا ہے گھر والے بھوک کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ موسیٰ کو ذرا جلدی بھوک لگ جاتی ان کا بازار سے آ جاتا اور خاکسار حسین اپنے بھائی کا دلیہ خود بناتے کہ شاید شگفتہ خراب نہ کردے۔ میں اُن کی ان خوبیوں پر حیران آج بھی ہوں کہ زواربھائی کی محبت میںزندگی کے ماہ و سال چلتے رہے‘ ہم ماہ و سال کی سختیاں سہتے اور اکیلے محسوس کرنے لگے۔ زوار بھائی کی رحلت کے بعد تو زندگی خشک درختوں کی طرح ٹکراتے محسوس ہوتی یہ گھر ان کے وجود سے خوشگوار تھا۔ تجربات زندگی پر محیط ہوتے گئے۔
یادیں آج بھی مجھے اندر اندر سے ستاتی رہتی ہیں۔ ان کے بہترین دوست پروفیسر انور جمال‘ پروفیسر خالد‘ ڈاکٹر اعجاز‘ سعید گل‘ حاجی میرداد‘ بشیر احمد‘ پروفیسر میانہ۔ اگر میں خاکسار کے ان کے ساتھ گزرے لمحوں کو قلمبند کروں ۔ تو نہ مجھ سے لکھا جائے گا نہ صحت اجازت دے گی۔
اگست کا مہینہ کیا آیا‘ سب راحتیں‘ خوشیاں اور امنگیں ساتھ لے گیا اور خاکسار بیمار ہوئے۔ بلڈ پریشر اچانک شوٹ کرگیا شوگر بھی بڑھ گئی۔ میں ٹانگیں دباتی رہی۔ بار بار منع کرتے کہ تم خود کمر کی مریضہ ہو بس کرو! اب شہنام علی کو کہا میں اب زیادہ دن نہیں جیؤں گا۔ عاصمہ (بہو) ڈیوٹی سے آئیں تو انہیں اشارہ کیا کہ بیٹی جلدی سے آم چھلکا اتار کر لاؤ‘پھر اسی عاصمہ بیٹی کو میں نے دیکھا کہ 1122 ایمبولینس میں لٹا رہی ہے اہل محلہ کے بڑے تو بڑے بچے بھی ننگے پاؤں ایمبولینس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ C.C.U پہنچے۔ ڈاکٹر کی درد میں ڈوبی آواز نہ بھلا سکوں گی دیر ہو گئی بیٹے نے کہا نہیں‘ میرے باپ کو زندہ رہنا ہو گا۔ آپ کوشش تو کریں ۔ بیٹا ڈاکٹروں کے پیچھے بھاگتا رہاتمام کوششیں لاحاصل نکلیں اور خاکسار ہمیں جدائی کا غم دے کر چلے گئے۔