چودہ اگست اور اس کا مفہوم

آج چودہ اگست یعنی ’’روزِ آزادی‘‘ ہے۔ اگر معنوی طور پر دیکھیں تو چودہ اگست اُس منزل کا نام ہے جس تک پہنچنے کے لئے دہائیوں پر محیط منحنی، طویل اور تکلیف دہ سفرسے نبرد آزما ہوئے بغیر بات نہ بنتی تھی ۔آج اس لہولہان سفر کی جملہ لفظی تصاویر سے لائبریریاںبھری پڑی ہیں۔ ان لفظوں کے حرف حرف سے ہچکیاں،سسکیاں، نوحے ،بین، آہ وبکا،خوف،بے بسی،اذیت،لگن اور ولولہ ٹپکتا دکھائی دیتا ہے۔ مگر آج بائیس کروڑ کی اس آزاد قوم سے اگرسوال کیا جائے کہ چودہ اگست کس منزل کا نام ہے تو امید واثق ہے کہ نصف سے زیادہ آبادی اس’’ روزِ یکتا‘‘ سے ناواقف ہوگی ،اور بقیہ ، معدودے چند کو چھوڑ کر ،کتابوں میں سے پڑھے ہوئے دو چار جملوںکے علاوہ کچھ نہ جانتی ہو گی۔
 وہ چند نفوس جو اس قافلہ میں سے ابھی تک باحیات ہیں،اس دن کی اہمیت سے کما حقہ آشنا ہیں۔اس قافلہ میں سے کتنوں نے سر پر ٹوکرے میں بوڑھی ماںاور باپ کواُٹھا کر چودہ اگست کی منزل کی طرف رختِ سفر باندھا۔کتنے ننھے منے بے لباس بچے بھینس کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر روشن مستقبل کی امید لیے منزلِ مراد کی جانب رواں دواں تھے۔وہ مائیں جن کی بچیاں ان کی آنکھوں کے سامنے ’’حالات زدگی ‘‘کا شکار ہوئیںے
آ ج ا گر اُن سے چودہ اگست کا مفہوم پوچھیں تو شاید ان کی زبانیں قوت ِگویائی کھو دیں،تاہم ان کی آنکھوں سے ٹپکتی ساون کی جھڑی ،خلا ئوںمیں گھورتی اورہجرت کے راستے پرٹکی پھٹی پھٹی نگاہیں،کپکپاتے ہونٹ اور بیتے سفر کی قدم قدم،لمحہ لمحہ کی بھگتان کئی اَن کہی وارداتوں کی گواہ ہیں۔ 
سچ بات بھی یہی ہے کہ اذیتوں کے گھائو محسوس تو کیے جاسکتے ہیں مگر لفظوں کی ناتوانی ان کی’’تاثیر‘‘ کو محسوس نہیں کرا سکتی۔اس لیے آج ہم چودہ  اگست اور اس سے وابستہ حقائق و واقعات کو محض نصابی ضرورت کے لئے جانتے ہیں۔ مگر انہیں محسوس کرنے کے وصف سے عاری ہیں۔
ویسے بھی من حیث القوم ہماری یاداشت زیادہ سے زیادہ تین دن تک ہمارا ساتھ دیتی ہے۔ پھر ہمارا تمام جوش وجذبہ اور  وابستگی تیزی سے دم توڑنے لگتے ہیں۔ ہم نے آزادی کا مفہوم یہ نکالا ہے کہ جس کا جو جی میں آئے کرتا جائے ، اُس کا حق بنتا ہے۔
 پاکستان کے جُملہ سیاسی ،انتظامی، قانونی، سماجی، معاشی اورمذہبی منظر نامے پر نظر دوڑانے سے جس طرح کی آزادی کا تصور ہمارے سامنے ابھرتاہے اُس طرح کی آزادی کا تصور شاید ہی دنیا کے کسی اورحصہ میں پایا جاتا ہو ۔
آج ہمارا میڈیا آزاد ہے، جو چاہے پیش کرے۔ہمارے مسجد و مکتب آزاد ہیں جو چاہیں اور جس طرح چاہیں نصاب سخن کا حصہ بنائیں۔ڈاکٹر آزاد ہے، ہسپتال کے اوقات کے دوران جیسے چاہے مریض سے برتائو کرے۔انجینئر آزاد ہے، سڑکوں اور سرکاری املاک کے لئے تعمیراتی میٹریل کا انتخاب جیسے چاہے کرے۔ قانون دان آزاد ہے،مرضی کی قانون کی تشریح اس کا حق ہے۔ سیاستدان آزاد ہے ،’’ ملکی سلامتی کے نام پر‘‘ ، جس جماعت سے چاہے الیکشن لڑے، جس کی حمایت کرے اور جس اتحاد کا حصہ بنے۔ہر عوامی دفتر میں بیٹھا ملازم آزاد ہے کہ سائل کے ساتھ مرضی کا برتائو کرے۔
 آئین حقوق و اختیارات کا غیر مبہم مرقع ہے۔ تاہم کتنے طالع آزمائوں نے اس کی ’’عصمت دری‘‘ کی، مگر ان کے ’’ نظامِ ِ تحفظ‘‘ نے اُن کا بال بیکا تک نہ ہونے دیا۔ 
آج طاقتور جتنا بڑا جرم کرلے،ڈاکو جتنا بڑا ڈاکہ ڈال لے، ہماری معاشرتی ساخت اور نظامِ انصاف اسے گرفت میں لانے میں شاذونادر ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ خواہ کوئی ’’خوبصورت دنیا ‘‘کے انتہائی خوبصورت مقامات پرکالونیاں بنائے یا محلات تعمیر کرے،اربوں کا غبن کر کے جہاں چاہے آباد ہو، کچھ دنوں کی نام لیوا قانونی کارروائی میں سے گزر کر’’ غسل دیانت داری‘‘ سے سرفراز ٹھہرتا ہے۔پھر ’’نئے جوش و جذبہ سے سرشارہو کر تعمیر وطن کا بوجھ اپنے ناز ک کندھوں پر اٹھانے کے لئے خود کو تیار پاتا ہے‘‘۔
آج ہم مادر پدر آزادی کا ثمر کاٹ رہے ہیں۔ ملک کے گرد قرضوں کے جال گنجل سے گنجل دار ہوتے جا رہے ہیں۔ زرعی زمین رہائشی کالونیوں اور کارخانوں کی تعمیر کی زد میں آکر ناپیدگی کی طرف رواں دواں ہے۔پانی کے ذخائر جہاں قلت کی نشاندہی کر رہے ہیں وہاں زیر زمین صاف پانی، خود غرض اوراستحصال پسند شوگر ملوں اور دیگر فیکٹریوں کے مالکوں کے ہاتھوں زہر آلود ہوتا جا رہا ہے۔ فحاشی کو فحاشی کہنا ناعاقبت اندیشی اور رجعت پسندی تصور کیا جارہا ہے۔ آبادی کی رفتار’’ ترقی کی منازل‘‘ طے کر رہی ہے۔ تعلیم محض ڈگری کی محتاج ہونے کے باعث جوہر تعلیم سے عاری ہے۔دین دار کہلانا جُرم بنتا جا رہا ہے ۔عدم برداشت، گالم گلوچ ،بہتان تراشی فیشن بن گیا ہے۔سب سے اہم یہ کہ امیر امیر اور محفوظ تر، غریب غریب اور مزید بے یارو مددگار ہوتا جا رہا ہے۔ ایسی آزادی شاید ہی کسی ریاست کے باسیوں کو نصیب ہو۔
وطن عزیز میں سرکاری ملازمتوں میں’’کھلی آزادی ‘‘کے تصور کی بنیاد پر ہر اَن پڑھ اور تعلیم یافتہ شخص سرکاری ملازمت کے حصول کواپنا نصب العین بنائے بیٹھا ہے۔ ہاتھ سے کام کرنا یا کوئی ہنر سیکھنا ہتک آمیز لگتا ہے۔ ہر طرح کا چھوٹا یا بڑا ترقیاتی یا رفاعی کام کرنے کے لئے نظریں مسلسل سرکارکی طرف لگی ر ہتی ہیں۔ حالانکہ کسی بھی طبقہ کے اندر چھوٹے چھوٹے طبقاتی،رفاعی اور تعمیری کاموں کوباہم تعاون سے کرناقدرے آسان ہے۔مگر ہماری نصابی تعلیم و تربیت نے ہمارے اندر معاشرتی حقوق و فرائض کی ادائیگی کے جذبے کو پنپنے ہی نہیں دیا۔آج معاشرے کے صاحبِ شعور طبقہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے ’’ وسیب‘‘ میں لوگوں کے اندر رفاہِ باہمی کا تصور اجاگر کرے۔سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ نجی حیثیت میں چلنے والے تعلیمی ادارے، طلباو طالبات کی معاشرتی تربیت کی طرف توجہ دیں اور آزادی کے مفہوم کو رگوں میں بہتے ہوئے خون کا جزوِ ناگزیر بنائیں۔ جب شعور کی بیداری یوںجڑ پکڑے گی تو یقینی طور پر ہم چودہ اگست کے مفہوم کو سمجھنے کے اہل ہوتے جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن