77واں یوم آزادی

پاکستان کے 76سالہ سفر کے بعد آج 14 اگست کو قوم ایک بار پھر تجدید عہد کے طور پر بڑے جوش و خروش کے ساتھ منا رہی ہے۔ زندہ قومیں اپنی اقدار اور اسلاف کی روایات کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں بلکہ ایسے مواقع پر انہیں شایان شان طریقے سے مناتی بھی ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں تہواروں اور خاص دنوں کو اہتمام سے منانے کی روش خاصی عام ہے اب تو یار لوگوں نے محبت کیلئے بھی دن مخصوص کر رکھے ہیں اسی طرح ہر سال ہم 14 اگست کو اپنا یوم آزادی بڑی شان و شوکت سے مناتے ہیں اور اس کے بعد سارا سال اس آزادی کی بقا کے لیے کچھ بھی نہیں کرتے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان عطیہ خداوندی ہے اور اس کی بقا کی ذمہ داری بھی قدرت نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے ورنہ ہم سب نے مل کر اس ملک عظیم کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے وہ سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ حکمرانوں،سیاست دانوں اور عوام کے تمام طبقات اس میں سے حصہ بقدر جثہ وصول کر رہے ہیں۔ اداروں کی زبوں حالی کا یہ حال ہے کہ ہر شاخ پر الو بیٹھا نظر آتا ہے۔
14 اگست ہمیں ان قربانیوں کی بھی یاد دلاتا ہے جب پاکستان بننے کے بعد مہاجرین کے لٹے پٹے قافلے اور ظلم و بربریت کا شکار بننے والے ٹرین کے مسافروں کے دلخراش مناظر دیکھے گئے۔ ہماری آج کی نوجوان نسل پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اس سرزمین پر آ کر سجدہ شکر بجا لانے والوں کے کتنے ہی پیارے راہ میں مار دیئے گئے، کتنی سہاگنوں کے سہاگ اور کتنی خواتین کی عزتیں لٹیں، کتنے ہی لوگ اپنی جائیداد اور گھر بار چھوڑ کر اس آزاد مملکت کے آزاد شہری بننے کی خواہش دل میں لیے اور آنکھوں میں خواب سجائے یہاں تک پہنچے آج ہمیں 14 اگست کے موقع پر یہ سوچنا چاہیے کہ کیا آج ہمیں ان خوابوں کی تعبیر مل چکی ہے یا ہم ابھی تک رہبر و رہزن کی پہچان بھی نہیں کر سکے۔تیز تر حرکت کے باوجود سفر کیوں سست ہے اور اس ملک پر ہمیں آسیب کا سایہ کیوں نظر آتا ہے۔ گذشتہ پچھتر سالوں میں ہم آگے بڑھنے کی بجائے روز بروز پیچھے کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ہم نے ماضی کے تجربات اور ان پچھتر سالوں کے گرم و سرد سے کیوں کوئی سبق حاصل نہیں کیا گویا صورتحال کچھ اس طرح کی ہے کہ
ہے شوق سفر ایسا اک عمر سے یاروں نے
منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلا
کاش قائد اعظم جیسے مخلص اور نڈر لیڈر کے بعد اس ملک کو ایسا کوئی مسیحا اور رہنما مل جاتا جو اس بھٹکی ہوئی قوم کو صحیح راستے پر چلاتے ہوئے منزل تک پہنچا کر دم لیتا بدقسمتی سے رہنما ملے بھی تو ایسے جو خود ہی راہوں سے بھٹکے ہوئے ہیں اس قوم کو کیا راستہ دیکھائیں گے۔ 
عوام کی حالت بدلنے کے دعوے کرنے والوں نے عوام کی بجائے اپنے حالات بدل لیے جس ملک کی پارلیمنٹ 4 دن میں 54 بل بغیر خواندگی اور اپوزیشن کے منظور کر لے وہاں عوام کی حالت زار کیسے بدل سکتی ہے۔ حکمران اور وزرا  اپنے پروٹوکول اور مراعات سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہیں عوام پر مہنگائی، ٹیکسوں اور مہنگی بجلی اور گیس کے بل ڈال کر ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔ جہاں عوام سسکتی اور بلکتی اور بلبلاتی نظر آئے اور اشرافیہ کا سر کڑاھی اور پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں وہاں لوگ تہوار اور جشن کس روح کے ساتھ منائیں گے۔
ہر جشن آزادی پر ہم صرف جھنڈوں، جھنڈیوں، غباروں اور بنے بنائے اخباری اور ٹی وی بیانات کے ساتھ اپنا فرض پورا کر کے بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور ہماری نئی نسل باجوں کی پاں پاں کے ساتھ گلی کوچوں اور سڑکوں پر طوفان بدتمیزی مچا کر جشن آزادی پوری مادر پدر آزادی کے ساتھ منانا اپنا حق سمجھتی ہے۔ ہمارا سبز ہلالی پرچم آ ج کے دن ہر گھر پر لہرانا چائیے اس کے ساتھ ہم ملک کو سر سبز بنانے کے لئے ہر فرد ایک پودا لگانے کے فارمولے پر بھی عمل کریں معاشرتی رویوں کو بدلنے کے لئے کتاب سے رشتہ جوڑیں اور فاتح عالم محبت کے پیغام کو عام کریںکاش ہم سب اپنے ساتھ اور اپنے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک اور ان کے عوام کے جذبے کی طرف بھی دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہو کہ ہم لوگ ان پچھتر سالوں میں بھی کہاں کھڑے ہیں اور اس وقت ہمیں کہاں ہونا چاہیے تھا۔
ہمارا 76 واں یوم آزادی بس ہم سے اسی بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم جشن آزادی صرف کھوکھلے انداز میں نہیں بلکہ اس کی پوری روح کے ساتھ منا کر زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیں۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو یہاں جو پھول کھلے کھلا رہے برسوں یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو آ مین۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...