بالکل درست کہا جاتا ہے پاکستان ایک معجزہ ہے۔پاکستان کو مدینہ کے بعد کلمہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی دوسری ریاست بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔لیکن تاریخ کے ورق اُلٹنے کی کوشش کریں تو ہم بخوبی یہ نقطہ سمجھ سکتے ہیں کہ حصول پاکستان کو معجزہ کیوں کہا جاتا ہے۔ آج سے ٹھیک سو سال پہلے جب برطانوی سامراج دنیا کے بڑے حصے پر قبضہ کرچکا تھا۔برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے سازشوں کا جال بچھا تے ہوئے ترک خلافت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا ۔ترک خلافت کے خاتمے کا واضع مقصد اسلامی نظام کو لپیٹنے جیسا عمل تھا۔برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے ترک قیادت کو اس امر پر مجبور کردیا گیاتھا کہ عربی زبان، اذان اور دوسری اسلامی اقدار پر عمل روکتے ہوئے ترکی کو سیکولر ملک بنایا جائے۔یہ معجزہ ہی تو ہے کہ ایک طرف جبر سے برطانیہ ترکی میں اسلامی اقدار کو ختم کروارہا ہوتا ہے تو اسی وقت اسی برطانیہ کے جھنڈے تلے آباد مسلمان کلمے کی بنیاد پر ایک الگ وطن کیلئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پھر یہ معجزہ ہوگیا کہ مسلمان دو قومی نظریے کی بنیاد یعنی اسلام کے نام کے پر ایک الگ ملک پاکستان کے نام سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔آج کے معصوم پاکستانیوں کیلئے دو قومی نظرئیے کو سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے کے حالاو و واقعات کو جاننے کی کوشش کریں۔ کل آبادی کا بیس پچیس فیصد مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک ہندوستا ن پر حکومت کی ۔اسکے باوجودہندوستان میں انگریزوں کے آنے سے پہلے تک مذہبی ہم آہنگی مکمل طور پر موجودتھی ۔
کمپنی سرکارنے تقسیم کرو اور حکومت کرو کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ہندوستاں میں بسنے والے ہندووں کے ذہن میں یہ نقطہ ڈال دیا کہ مسلمان بادشاہوں نے اپنے دور میں ہندووں کے مندر گرا کے وہاں مسجدیں بنا ئی تھیں ۔اس مکروہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تاریخی مساجد کی دیواروں پر ہندو دیوی دیوتاوں کی تصاویر بنادی گئیں ۔کمپنی سرکار کی طرف سے ایسے فتنے کا بیج بو دیا گیا جس کی فصل آج بھی بھارت میں خوب خوب کاشت ہورہی ہے ۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد پچھلے کئی مہینوں سے بھارت کے قدیم شہر وارنسی (بنارس) میں موجود گیان واپی مسجد کو لے تنازعہ شدت اختیار کیے ہوئے ہے۔مسلم راہنماوں کا کہنا ہے کہ اگر مسلمان ہندوو ں کا مندر گرا کے مسجد بناتے تو اپنی عبادت کی جگہ میں دیوی دیوتاو ںکی مورتیاں کیسے باقی رہنے دیتے ۔یہ سب مسلمانوں کو دبانے کا ایک حربہ ہے ۔جو شدت پسندہندو اختیار کیے ہوئے ہیں ۔شدت پسند ہندو قیادت نے الیکشن کی تیاری کے پیش نظر صوبہ ہریانہ کے ضلع نوع میں پچھلے کئی ہفتوں سے مسلمانوں کے خلاف محاذ کھولا ہوا ہے ۔حالت یہ ہے کہ مسلمان جمعہ کی نماز کے لیے بھی مسجد نہیں جا سکے۔ اسی پہ بس نہیں بلکہ ایک مہا ہندو پنچائیت نے پولیس کی سرپرستی میں یہ فیصلہ صادر کیا ہے کہ مسلمانوں دکانداروں سے ساما ن نہ خریدا جائے۔ مسلمانوں کا مکمل سوشل بائیکاٹ کیا جائے۔ حیرت ہے دنیا کی بڑی جمہوریت کا دعوی کرنیوالا بھارت اسکی عدالتیں ، انتظامیہ اور سیاستدان اس پر خاموش ہیں۔ پھر صاحبو! یہ مان لو نا کہ قیام پاکستان ایک معجزہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح جیسے زیرک سیاست دان نے ہندو شدت پسندوں کے ذہن کو بروقت پڑھ لیا اور اپنی مدلل گفتگو سے مسلمانوں کا مقدمہ کچھ یوں پیش کرتے کہ شاطر انگریز وں کے پاس پاکستان کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی جواب نہ تھا ۔ میرے بہت سے ہم و طن یہ گلہ کرتے ہیں کہ آج کا پاکستان اقبال کے خواب اور قائد کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتا ہے ۔چند خاندان اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں ۔سیاست دان صرف حکومت کیلئے اس ملک سے پیار کرتے ہیں ان کی اولادیں اور مال و دولت مغربی ملکوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔عام شہریو ںکو وہ حقوق نہیں مل رہے ہیں جن کا وعدہ قائد اعظم نے کیا تھا۔میں یہی عرض کروں گا کہ گلے شکوے سے کچھ حاصل نہیں ہوا کرتا ۔جیسے حصول پاکستان کے وقت اس خطے کے لوگ ایک قوم بن گئے تھے ضرورت ہے کہ آج ایک بار پھر سے مسلمان اجتماعی شعور کا مظاہرہ کریں۔قائد اعظم کی طرح ہمارے سیاست دان اپنا کردار اتنا مضبوط کرلیں اوراپنی گفتگو میں ایسی دلیل لائیں کہ اپنے پرائے سب کیلئے ان کی تجاویز قابل قبول ہوں۔ راہنما عوامی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر اس ایشو پر بات کریں کہ جس سے عوامی حقوق ضبط ہوتے ہوں۔ قوم کا ہر فرد ملکی قانون پر عمل کی کوشش کرے۔معجزہ آج بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ یاد رکھنا ہوگا کہ رب کی مدد یقین والوں کیلئے ہی آیا کرتی ہے ۔علما کرام اور دانشوروں کو اجتماعی شعور اجاگر کرنے کیلئے بہت محنت اور محبت سے کام کرنا ہوگا۔ اساتذہ اور مولوی صاحبان کو ہر فرد میں یہ یقین پیدا کرنا ہوگا کہ اسکے بدلنے سے نظام بدلنا شروع ہوجائیگا ۔محکموں اور اداروںکو ملکی قوانین پر عمل کی راہ پکڑنی ہوگی ۔اگر ملکی نظام میں اسلامی اصولوں کے مطابق تبدیلی آجائے تو آنے والے چند سالوں میں پاکستان قرض مانگنے کی بجائے غریب ملکوں کی مدد کرنے کے قابل ہو سکتا ہے ۔