ملک کو انتشار نہیں اتحاد کی ضرورت ہے

Aug 14, 2023

محمد اعجاز الحق

پاکستانی قوم آج اپنی آزادی کے76 ویں سال کا آغاز کر رہی ہے‘ گزشتہ سال ہم نے اپنی آزادی کا ڈائمنڈ جوبلی سال منایا تھا‘76 سال پہلے لاکھوں قربانیوں کے بعد یہ پیارا پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا،یہ دن ہمیں آزادی کے سرشار لمحوں سے ہمکنار کرتا ہے، آج کے دن پوری قوم ایک طرف اپنے رب کے حضور آزادی کی نعمت عطا کرنے پر سجدہ شکر بجا لاتی ہے تو دوسری طرف ایک عظیم اور بے مثل خطہ ارضی کی مالک ہونے پر فخر کا اظہار بھی کرتی ہے۔ 1947ء میں ہم نے ایک بے سرو سامانی کے عالم میں آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہو کر اپنا سفر شروع کیا تھا،آج بفضل ِ تعالیٰ ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جس پر کوئی باوقار قوم فخر کر سکتی ہے۔ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں اور ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی قوم کی حیثیت سے دنیا میں جانے جاتے ہیں،پاکستان کی جغرافیائی اور سٹرٹیجک پوزیشن کی وجہ سے دنیا ہمیں کبھی بھی نظر انداز نہیں کر سکتی، ہماری معیشت، ثقافت، ورثہ اور تاریخی آثار ہمیشہ سے دنیا کی توجہ حاصل کرتے رہے ہیں۔ یہ76سال کا عرصہ ہم نے ایسے نہیں گزارا کہ جسے رائیگانی کا سفر کہا جا سکے،ہم ایک مضبوط فوج کے مالک ہیں اور پر عزم قوم ہمارا اثاثہ ہے‘ یہ قوم اسلام کے نظام حیات کو اپنی نجات اپنی دنیا میں اپنی سلامتی کی ضامن مانتی ہے‘دنیا میں امن کے لیے ہمارے کردار کو تسلیم کیا جاتا ہے،اقوام عالم میں ہم نے ہمیشہ ایک مثبت اور جاندار موقف اپنا کر اپنے وجود کو منوایا ہے، ہم اپنے پارلیمانی سیاسی نظام حکومت کے لیے ایک متفقہ آئین رکھتے ہیں اور اس کی اساس پر ایک مضبوط جمہوری و پارلیمانی نظام کے وارث ہیں،تعلیم کے شعبے میں نجی اور پبلک سیکٹر دونوں ہی اعلیٰ تعلیم کے مواقع پیش کر رہے ہیں اور ہماری نئی نسل جدید علوم سے فیض یاب ہو کر نہ صرف اندرون ملک بلکہ دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں ہماری ترقی بڑے ممالک جیسی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے پاکستان کا شمار اْن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اس شعبے میں تیز رفتار ترقی کی ہے پاکستان دنیا کے اْن ممالک کی صف ِ اول میں کھڑا ہے جنہوں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیابی حاصل کی اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے میں ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر اپنے حصے کا فرض ادا کیا، آج ہمارے بڑے شہر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے شہروں کا مقابلہ کر رہے ہیں،فلک بوس عمارتیں،کشادہ سڑکیں اور زندگی کی ہر سہولت سے مزین رہائشی آبادیاں غرض وہ کون سی چیز ہے جو ہمارے پاکستان میں دستیاب نہیں اور دنیا میں موجود ہے، سو ہم اپنے گزرے سفر پر فخر کر سکتے ہیں تاہم قوموں کی زندگی میں خود احتسابی کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے،اسی کے نتیجے میں ہم بہتر سے بہترین کی طرف جا سکتے ہیں، ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم نے قائداعظم? کے فرمان اتحاد، ایمان اور یقین محکم کو فراموش کیا ہے،خاص طور پر اتحاد کے معاملے میں، ہماری سوچ انتشار کا شکار رہی ہے، سیاسی سطح پر ہم نے قومی مفاد کو پس پشت ڈال کر ذاتی و گروہی جھگڑوں کو فروغ دیا، کوئی قوم منتشر ہو کر ترقی نہیں کر سکتی، اتحاد ہی ترقی کا واحد راستہ ہے، اسی لیے قائداعظم? نے اس پر بہت زور دیا تھا،ہمارے ہاں سیاست نے قوم کو تقسیم کیا ہے جوڑا نہیں ہے۔سیاسی اختلافات ہر معاشرے میں ہوتے ہیں مگر وہ ایشوز کی بنیاد پر جنم لیتے ہیں،سیاسی تقسیم نفرتیں پیدا نہیں کرتی بلکہ اْسے صحت مند مقابلے کی فضائ￿ کا باعث بننا چاہیے، ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ قومی مسائل پر بھی ہمارے سیاست دان مل کر نہیں بیٹھتے، سیاست دانوں کی تفریق کے باعث عوام بھی تقسیم ہو جاتے ہیں،اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے،جو اتنی گہری ہے کہ اْسے پاٹنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔معیشت اِس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ اپوزیشن اور حکومت ایک جگہ مل بیٹھیں اور میثاق معیشت کی بنیاد رکھیں مگر انتشار پیدا کر کے بے یقینی اور بے چینی کو جنم دیا جا رہا ہے جو معیشت کے لیے زہر قاتل ہے‘ ہم حقیقی آزادی تب پائیں گے جب ہم اپنی اس آزادی کی نعمت کو ایک ملی‘ قومی اور اسلامی ذمہ داری تصور کریں گے اور باہم مل کر ملک کو اتحاد و اتفاق سے آگے لے جانے کی سعی کریں گے۔ فوج ہمارا قومی ادارہ ہے تمام سیاسی جماعتیں اپنے دائرے میں کام کریں اور عوام کی جانب دیکھیں فوج ایک قومی اادارے کے طور پر ہم سب سے اعتماد کا متقاضی ہے اِس وقت ہمیں ایک ایسے سیاسی اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے جو بنیادی قومی مسائل پر ہماری رہنمائی کر سکے، ہماری سیاسی تاریخ ہنگامہ آرائی،تحریکوں اور انتشار سے بھری پڑی ہے، یہی وہ شعبہ ہے جس میں پاکستان استحکام سے محروم رہا ہے، آج کے دن یہ عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ استحکام پاکستان کے لیے سیاست سے بالاتر ہو کر کام  کریں۔ ہمیں پاکستان کو اپنی امیدوں کا محور بنا کر اپنے کردار و عمل کا ازسر نو تعین کرنا چاہیے۔یہ آج کے دن کا اصل تقاضا ہے۔ ہمارے لیے سب سے اہم بات معاشی آزادی بھی ہونی چاہیے‘ قوم کو مقروض زندگی اب منظور نہیں ہونی چاہئے ابھی حال ہی میں آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط پر معاہدہ کرنا پڑا ہے‘ اس میں سے ایک شرط ’’ایکسٹرنل فنانسنگ‘‘ کی تھی جسے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مل کر یقینی بنایا۔ سعودی عرب نے پاکستان کی ہر مشکل وقت میں مدد کی ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر کب تک کشکول اٹھائے پھرتے رہیں گئے ہمیں بطور قوم اِس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی اشد ضرورت ہے۔ معاشی معاملات میں بہتری سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں پارلیمانی اور جمہوری سیاسی نظام میں آزادانہ‘ منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات کی بڑی اہمیت ہے یہ منصفانہ نہ ہوں تو سیاسی تقسیم بڑھ سکتی ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام کی بنیادی ذمہ داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے تاہم اِس معاملے پر تمام سٹیک ہولڈرز کو توجہ دینی چاہئے، اختلاف کی حدود اور قیود طے کی جانی چاہئیں،اپنے اندر تحمل پیدا کرنے کے علاوہ ایک دوسرے کے ساتھ روادری برتنے کی بھی ضرورت ہے۔ وقت آ گیا ہے ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں، اپنے انداز و اطوار درست کریں، کمر کس لیں اور خودی میں اپنا نام پیدا کریں۔ملک کو ایک سمت میں ڈال دیا گیا ہے جس سے انحراف کی اجازت کسی کو نہیں دی جانی چاہیے۔ نو مئی کے واقعات نے ملکی سیاست کی تصویر کافی حد تک بدل دی۔ منصفانہ نظام عدل ہمیں مسائل سے باہر نکال سکتا ہے‘ اور معاشی بحران سے بھی نجات مل سکتی ہے اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ملک میں مہنگائی کو لگام ڈالنے کی ضرورت ہے عام آدمی کے لیے زندگی مشکل ہوتی جارہی ہے، ڈالر بے لگام ہو گیا اور بے روزگاری نے ملک میں ڈیرے ڈال لیے ہیں چین اور سعودی عرب سمیت بعض دوست ممالک کے تعاون سے پاکستان اپنی تمام تر بیرونی ادائیگیاں کرنے میں تو کامیاب ہو گیا لیکن یہ عارضی حل ہے آئی ایم ایف سے سٹینڈ بائے ارینجمنٹ کے تحت تین اقساط میں تین ارب ڈالر کی ڈیل ہوئی ہے ہم نے 8.2 ارب ڈالر کا ’’فنانسنگ گیپ‘‘ آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، چین، سعودیہ اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے توسط سے پْر کرنا ہے ملک میں اگرچہ انتخابات میں ایک یا دو سال کی تاخیر کی بحث جاری ہے تاہم معاشی بحران پر کسی حد تک قابو پائے جانے کے بعد اِس تاخیر کی کوئی منطق باقی نہیں بچتی ملک کی دو بڑی جماعتوں نے اِس بات کا اظہار کر دیا ہے جبکہ پی ڈی ایم اور دیگر اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے اور پی ٹی آئی سمیت تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں بروقت انتخابات ہی چاہتی ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ دستور کے مطابق ملک میں بروقت انتخابات کرائے جائیں تاکہ عوام جس پر بھی اعتماد کریں وہی ملک کی باگ ڈور تھام لے اور معاملات کو آگے چلائے۔
 بہتر یہی ہے کہ انفرادی خواہشات کی بجائے صرف آئینی طریقہ کار پر عمل کیا جائے

مزیدخبریں