اہل ِ پاکستان آج 14 اگست کو وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کا 76واں جشن ِآزادی قومی اور ملی یگانگت کے جذبے سے معمور ہو کر منارہے ہیں۔ ملکی سلامتی و استحکام کے تقاضوں کے تحت ہمیں آج مکار دشمن بھارت کی ان سازشوں کو بھی پیش نظر رکھنا ہے جن کا آغاز اس نے چار سال قبل 5 اگست 2019ء کو اپنے ناجائز زیر تسلط کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اور اسے بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا کر کیا تھا۔ کشمیری عوام نے دو سال پہلے اس بھارتی جبری اقدام کے خلاف دنیا بھر میں عشرہ استحصالِ کشمیر منایا جبکہ کل 15 اگست کو کشمیری اور پاکستانی عوام بھارتی یومِ آزادی کو یومِ سیاہ کے طور پر منائیں گے جس کے دوران اقوام عالم میں بھارتی جبر و تسلط کو اجاگر کیا جائے گا اور مسئلہ کشمیر کے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کے لیے زور دیا جائے گا۔
آج وطن عزیز کا جشنِ آزادی قائداعظم کے ویژن کے مطابق مادرِ وطن کو امن، ترقی اور خوشحالی کا گہوارہ بنانے کے پختہ عزم کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں آج ملک بھر میں عام تعطیل ہے۔ پرنٹ میڈیا نے آج جشنِ آزادی کے حوالے سے خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا ہے جبکہ سرکاری اور نجی الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے آج وطن سے محبت کے جذبے کو اجاگر کرنے والی خصوصی نشریات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ آج دن کا آغاز مساجد میں نماز فجر کے بعد ملک و قوم کی سلامتی اور ترقی و خوشحالی کی دعاؤں سے ہوگا۔ وفاقی دارالحکومت میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21، 21 توپوں کی سلامی دی جائے گی۔ ملک بھر میں مختلف مقامات پر پرچم کشائی کی تقریبات منعقد کی جائیں گی۔ اسی طرح یومِ آزادی کی مناسبت سے آج سرکاری اور نجی سطح پر سیمینارز اور دیگر تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا جن میں مقررین آزادی کی تحریک میں دی جانے والی قربانیاں اجاگر کرتے ہوئے وطن عزیز کی ترقی و استحکام کے لیے قوم کے بے پایاں جذبہ کا تذکرہ کریں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی، دوسری حکومتی و سرکاری شخصیات اور پاک فوج کے افسران آج حضوری باغ لاہور میں شاہی قلعہ پر رسمِ پرچم کشائی ادا کریں گے اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے مزار مبارک پر حاضری دیں گے جہاں پھولوں کی چادریں چڑھانے کے بعد فاتحہ خوانی کی جائے گی۔ اسی طرح آج کراچی میں قومی سیاسی و عسکری شخصیات مزار ِ قائد پر حاضری دیں گی، پھولوں کی چادریں چڑھائی جائیں گی اور ملک کی ترقی و سلامتی کے لیے خصوصی دعائیں مانگی جائیں گی۔
یہ حقیقت تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو چکی ہے کہ متعصب ہندو اکثریت نے مسلم دشمنی کے باعث برصغیر کے مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کر کے اور انھیں اپنے سے کمتر انسان کا درجہ دے کر دو قومی نظریے کی خود بنیاد رکھی تھی جو تحریک پاکستان کی بھی بنیاد بنی اور بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوئی، جس میں قائداعظم کی بے بدل قیادت میں ایک ایسے جدید اسلامی فلاحی جمہوری معاشرے کی تشکیل اور اس آزاد و خود مختار پاکستان کا تصور متعین ہوا، جس میں مسلمانوں کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو گی بلکہ انھیں اقتصادی غلامی کے شکنجے میں جکڑنے والی ہندو بنیا ذہنیت اور انگریز کے ٹوڈی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے استحصال سے بھی نجات ملے گی اور اس خطے کے مغلوب مسلمانوں کی جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں قائم ہونے والی اس مملکت خداداد میں خلقِ خدا کے راج کا تصور بھی عملی قالب میں ڈھل جائے گا۔ قیامِ پاکستان کے مقاصد، اس کے نظریے اور نظام کے حوالے سے قائداعظم کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں تھا چنانچہ وہ قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران ہر مرحلے پر مسلمانانِ برصغیر اور دنیا کو قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کرتے رہے۔ آج جو دانشور حلقے نظریۂ پاکستان اور قیام پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حقائق کو مسخ کر کے پیش کررہے ہیں انھیں اسلامیہ کالج پشاور میں قائداعظم کی 13 جنوری 1948ء کی تقریر کے یہ الفاظ ذہن نشین کر لینے چاہئیں کہ ’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔‘‘
بدقسمتی سے قائد کی رحلت کے بعد ’’کھوٹے سکوں‘‘ نے اپنے مفادات کی بجا آوری میں پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے بجائے اپنے مفادات اور مسائل کی آماج گاہ بنا دیا۔ سیاست دانوں کے آپس کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جرنیلی آمروں کو ماورائے آئین اقدامات کے تحت جمہوریت کی بساط الٹانے اور اقتدار کا موقع ملتا رہا۔ اس طرح وطن عزیز کے 34 سال جرنیلی آمریتوں کی نذر ہوگئے۔سیاست دان قائداعظم کے صحیح جانشین ہوتے تو ملک میں جمہوریت مضبوط ہوتی، آمریت کے سائے وطن عزیز پر نہ پڑتے اور قومی وسائل کو بروئے کار لا کر قوم ترقی و خوشحالی کی منازل سے ہمکنار ہو چکی ہوتی۔ ہماری خارجہ پالیسی کی یہ صورتحال رہی کہ ہم کشمیر تو کیا حاصل کرتے، آدھا پاکستان بھی گنوا بیٹھے اور بھارت نے کشمیر سے متصل سیاچن کے ایک بڑے حصے پر بھی قبضہ کرلیا۔
پاکستان کو طویل عرصہ دہشت گردی کے ناسور کا سامنا بھی رہا جسے پاک فوج نے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ دہشت گرد اپنے آقاؤں کے احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے پھر سرگرم ہو چکے ہیں جنھیں بھارتی ’’را‘‘ کی مکمل سرپرستی حاصل ہے جبکہ کابل کی عبوری طالبان حکومت بھی ہمارے ساتھ مناقشانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ بھارت کی سازشوں کو ٹھوس حکمت عملی اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹ کر ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان دشمن اور ہندو انتہا پسندوں کی نمائندہ جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی بھارت سرکار کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کے خلاف جو گھناؤنی سازشیں کی جا رہی ہیں اور شہ رگِ پاکستان یعنی کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کے لیے بھارتی فوجوں اور پیرا ملٹری فورسز نے مقبوضہ وادی کو گزشتہ چار سال سے محصور کر کے جس وحشیانہ انداز میں کشمیریوں کا عرصۂ حیات تنگ کیا ہوا ہے، بالخصوص کشمیری نوجوانوں کو شہید اور مستقل اپاہج کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اس کے پیش نظر آج یومِ آزادی کے موقع پر قوم اور حکومت کی جانب سے کشمیری عوام کو ان کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا پیغام دینا، ملک کی سلامتی و خود مختاری کے تحفظ کے لیے بھی پوری قوم کا یکجہت ہونا اور اس کے ساتھ ساتھ قیامِ پاکستان کے مقاصد سے بالخصوص نئی نسل کو آگاہ رکھنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ اس کے لیے پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کی بھی ضرورت ہے جو گزشتہ کچھ عرصہ سے جاری اقتدار کی رسہ کشی میں عملاً غارت ہو چکا ہے۔
پی ٹی آئی کے قائد اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکی سازش سے تعبیر کرکے حقیقی آزادی کا نعرہ لگاتے رہے ہیں۔ انکی جانب سے اداروں بالخصوص افواج پاکستان کے ساتھ ٹکراؤ کی اختیار کردہ پالیسی نے جہاں ملک کو بدترین محاذ آرائی کی جانب دھکیل دیا ہے وہیں حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی بھی ریس لگ گئی ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے قائد کے چیف آف سٹاف شہباز گل نے فوج کو تقسیم کرنے کی سازش تیار کر کے جلتی پر تیل ڈالا اور پی ٹی آئی کی مستقبل کی سیاست پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔ دوسری جانب محمد شہباز شریف کی قیادت میں تشکیل پانے والی پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کی چند روز پہلے ختم ہونے والی حکومت نے عوام کے غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل کو مہمیز لگا کر عوام کی مایوسیوں میں مزید اضافہ کیا ہے، نتیجتاً پاکستان کے جشنِ آزادی کے موقع پر پاکستان کا استحکام اور عوام کی خوشحالی پر سنگین خطرات لٹکتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہ صورتحال بھارت کو پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنی سازشیں پھیلانے کا نادر موقع فراہم کررہی ہے جو پہلے ہی کشمیر کو ہڑپ کر کے پاکستان پر اپنی نظر بد گاڑے بیٹھا ہے۔ کشمیری عوام دنیا سے کٹ چکے ہیں مگر اس سے فرق نہیں پڑتا، آزاد عالمی میڈیا کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کی رپورٹیں مسلسل نشر کررہا ہے۔ اس کا عالمی برادری کے ضمیر پر کتنا اثر ہوتا ہے، یہ سوالیہ نشان ہے تاہم پاکستان نے کشمیری عوام کا دامے درمے قدمے سخنے ساتھ نبھاتے ہوئے ان پر جاری بھارتی مظالم کو اقوام عالم میں اجاگر کرنے اور سلامتی کونسل سمیت ہر عالمی اور علاقائی فورم پر کشمیریوں کے استصواب کے حق کے لیے آواز اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارتی شرارتوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں اس وقت قائداعظم کے وژن پر عمل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ کشمیر کے بغیر پاکستان کا وجود مکمل نہیں ہو سکتا، لہٰذا کشمیر میں استصواب کے لیے عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہماری کشمیر پالیسی میں کسی قسم کا ابہام پیدا نہ ہونے دیا جائے۔ کشمیریوں کی جدوجہد درحقیقت تکمیل و استحکام پاکستان کی جدوجہد ہے جو ہمارے کسی فیصلے یا اقدام کے نتیجہ میں ضائع نہیں ہونی چاہیے۔ آج وطن عزیز کے 77ویں یومِ آزادی کے موقع پر ہمیں اپنی قومی خارجہ پالیسی کا بھی جائزہ لینا ہے کیونکہ امریکہ کی جانب سے بھارت کے سٹرٹیجک پارٹنر قرار پانے کے بعد ہمیں قومی خارجہ پالیسی میں اپنی ترجیحات کی سمت درست کرنا ہوگی مگر اس کے لیے پہلے ملک میں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے جو قومی قائدین کی باہمی چپقلش میں غارت ہوتا نظر آرہا ہے۔ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے پاسبان کی حیثیت سے ادارۂ نوائے وقت اپنے بانی حمید نظامی اور معمار مجید نظامی کے اصولی موقف پر ڈٹا ہوا ہے اور ان کے جدید اسلامی، جمہوری، فلاحی ریاست کے مشن کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہے۔ اس تناظر میں ملک میں آئین و قانون کی بالادستی، جمہوریت کی حکمرانی اور انصاف کی عمل داری ہمارا مطمح نظر ہے جو درحقیقت بانیانِ پاکستان اقبال و قائد کا وطن عزیز کے لیے روشن تصور تھا۔ خدا استحکام پاکستان کے مشن میں ہمیں استقامت عطا فرمائے۔
یومِ آزادی اور ملک کو درپیش سیاسی و اقتصادی چینلجز
Aug 14, 2023