تحریر:لیاقت بلوچ
نائب امیرجماعت اسلامی پاکستان
76واں یوم آزادی ، آزادی اللہ کی بڑی نعمت ، آزادی کی قدر ، آزادی کے مقاصد کاحصول بہت بڑی آزمائش اور آزاد قوم کا امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک غلامی سے دوسری غلامی سے نجات دلانے کے لیے علامہ اقبال کی فکر ولولہ انگیز کلام اور قائداعظم محمد علی جناح کی امانت و دیانت ،ذہانت و فطانت اور مسلمانوں کی آزادی کے لیے واضح دوٹوک موقف اور پر عزم قیادت عطا کی۔ قائداعظم کے قیام پاکستان کی تحریک کے لیے بے شمار پہلو ہیں۔ یہ امر بالکل عیاں ہے کہ تحریک پاکستان کی قیادت برصغیر کے مسلمانوں کے لیے صرف آزادی اور آزاد خطہ ہی نہیں آزاد پاکستان کو لا الہ الا اللہ کاعملی نمونہ بنانا چاہتے تھے کہ آزاد ، باوقار ، مسلم ملت ، قرآن و سنت کی روشنی میں مثال اسلامی ، فلاحی ریاست قائم کریں۔ یہ المیہ ہے کہ علامہ اقبال کی فکر کو صرف نظر انداز ہی نہیں عملاً بھلانے اور بھلادینے کا ہر حربہ استعمال کیاجاتارہاہے۔ اس طرح قائداعظم کے واضح وڑن کو بھی آزا دفکر ،اسلام کے اجتماعی نظام سے انکاری قوتوں نے پس منظر میں دھکیلنے کی ہر شیطانی کوششیں جاری رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ 24کروڑ آبادی کا آزاد ،باوسائل ،انسانی صلاحیتوں سے مالا مال ملک کو عزت ، وقار اور ترقی و استحکام سے دور کردیا ہے۔ جمہوریت ،انتخابات ، آئین و قانون کی بالادستی اور اسلامی نظریہ قیام پاکستان کی تحریک اور آزاد پاکستان کی بنیادوں میں ہے۔ لیکن انحراف نے ہر تباہی کے راستے کھو ل دیئے ہیں۔
تحریک آزاد ی کے کئی مراحل میں قائداعظم نے تحریک پاکستان کی قیادت کی۔ اس حوالہ سے برصغیر ہند کی سیاسی غلامی اور آزادی کی تحریک کے کئی نشیب و فراز آئے۔ 1935ء میں قانو ن ہند کی آمد کے ساتھ برصغیر کے اسلامیان ہند کی آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھا ہونا ، قرار داد لاہور کے بعد مسلسل جدوجہد اور آزادی کی منزل قریب آنے پر قائداعظم کی دور رس نگاہوں نے حالات کی اہمیت اور ضرورت کے مطابق مختلف اجتماعات ، سیمینارز ،کانفرنسوں اور عالمی حالات پر پالیسی بیانات اور خطاب کیے۔ اس حوالہ سے 1946-48ء کے عرصہ میں خطابات کی بے پناہ اہمیت ہے۔قائد کی تقاریر ، بیانات میں چند ایک کو 76ویں یوم آزادی کے موقع پر تذکیر ، یاد دہانی کے لیے اس مضمون کاحصہ بنایا جارہاہے۔ قائداعظم نے اس مدت میں نوجوانوں ، طلبہ ، خواتین ،تاجر وں، صنعت کاروں ، اساتذہ ،افواج کے افسروں اور بہت اہم موضوعات پر سیمینارز سے خطاب کیا اور کشمیر وفلسطین کے علاوہ عالمی حالات پر پالیسی بیانات دیئے جو تاریخ کا حصہ اور آج بھی پالیسی سازی کے لیے اہم بنیادہیں۔
( مرکزی مجلس قانون ساز کے انتخابات میں تاریخ ساز کامیابی پر 10جنوری 1946ئ۔پیغام )
’’اس شاندار کامیابی کے دن میں ان لوگوں سے جن کاہند کے مستقبل سے کوئی بھی سرو کار ہے کہتاہوں۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ ہمیں کھلونادے کر بہلا سکتے ہیں یاکوئی چال یا حربہ اختیار کرکے مسلمانوں کو قیام پاکستان سے کم تر شے قبول کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ کیونکہ صرف یہ ہی تو ہند کے آئینی مسئلے کا واحد حل ہے جو پاکستان اور ہندوستان دونوں کو امن،تحفظ اور خوشحالی کی منزل پر لے جائے گا۔ ‘‘
مرکزی مجلس قانون ساز اسمبلی میں صدفی صد کامیابی سے آزادی کی منزل قریب تر آگئی۔ اس سے عزم بالجزم واضح ہوگیا کہ پاکستان بنے گا اور آزادی کی تحریک منزل تک پہنچے گی۔ قائداعظم نے اس فتح و کامیابی پر اعلان کردیاکہ انتخابات کی جیت ہمارے عزم کااعلان ہے کہ یہ کوئی سراب نہیں اور نہ ہی کوئی غلط فہمی میں مبتلا رہے۔ ہم قیام پاکستان چاہتے ہیں اور یہ ہر قیمت اور ہر مخالفت کے باوجود پاکستان بن کر رہے گا۔ انتخابات کے پہلے مرحلہ کی کامیابی اسلامیان ہند کے لیے مسرت و شادمانی کا دن تھا، مسلم لیگ کی کامیابی پر بیرون ملک بھی سیاسی قوتیں حیران و ششدر تھیں۔ سیاسی عوامی انتخابی جدوجہد کی بنیاد پر کامیابی کی مثال آزادی کی تحریکوں میں کہیں اور نہیں تھی۔ ( قائداعظم کا11/جنوری 1946ئ، دہلی جلسہ عام سے خطاب )
بیرون ممالک میں جملہ سیاسی جماعتیں مسلم لیگ کی اس بے مثال کامیابی پر حیران و ششد ر ہیںکیونکہ دنیا کی انتخابی تاریخ میں اس نوع کی کامیابی کبھی حاصل نہیں ہوئی۔ ہٹلر اور مسولینی بھی نظر بندی کیمپوں ،گسٹا پواور طاقت ور افواج کے باوصف انتخابات میں سو فیصد کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ (ہمارے پاس اس طرح کی نظر بندی کیمپ ،گسٹا پو اور فوج کے علاوہ عقوبت خانے)کوئی چیز نہیں لیکن ہم نے پھر بھی پرعزم اورعظیم الشان کامیابی حاصل کی۔ ‘‘ قائداعظم نے دہلی 11/جنوری 1946کے جلسہ عام میں یہ بھی فرمایا کہ :
’’مسلم لیگ پرالزام ہے کہ یہ تنظیم تو نوابوں ، نواب زادوں اور خطاب یافتہ لوگوں کی جماعت ہے۔ جلسہ عام میں دو لاکھ سے زیادہ عوام موجود ہیں ، میں پوچھتاہوںکہ کیا یہ جلسہ عام نوابوں ، نواب زادوں اور خان بہادروں پر مشتمل ہے ( جلسہ عام کے شرکاء نے نعرہ ہائے تحسین بلند کیے)۔ ہم سے کتنے نواب اور خان بہادر ہیں ، قائد نے کہاکہ جس تحریک کے ساتھ عامۃ الناس نہ ہوں نواب صاحبان ، خطاب یافتہ لوگ کچھ نہیںکرسکتے۔ تحریک پاکستان کی طاقت اللہ کی تائید اور عوام کی طاقت ہے۔ ‘‘
قائداعظم نے لاہور ، علی گڑھ ، کلکتہ ،دہلی ، سکھ طلبہ ، سندھ مسلم کالج ، مسلم طلبہ ، آسام ،اسلامیہ کالج پشاور ،ایڈورڈ کالج کے طلبہ اجتماعات ، ملاقاتوں میں خطاب اور گفتگو کرتے ہوئے فرمایا۔ قائداعظم جہاں بھی جاتے لاکھوں لوگ استقبال کے لیے جمع ہوجاتے خصوصاً نوجوان ، طلبہ جوق در جو ق شریک ہوتے ، قائدکے ولولے بھی جوان ہوتے اور خطاب میں ولولہ اور عزم بے کراں ہوجاتا۔ (13جنوری1946ء ،اسلامیہ کالج میں خطاب)
’’میں آپ سے کہتاہوںکہ آپ دیہات کی راہ لیں اور دیہات کے عوام کو بتائیںکہ وہ کسی سے خوف زدہ نہ ہوں ایک مسلمان صرف قادر مطلق سے ڈرتا ہے صوبوں کے انتخابات میں مداخلت اور زور زبردستی ہوئی ہے۔ ہند میں کچھ مسلمان ہیں جو حکومت اور کانگرس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں انہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ یہ کویزلنگ ( غدار) ہیں۔ ہمارے پاس نہ قوت ہے ، نہ نظر بندی کیمپ ،نہ گسٹاپو اور نہ ظلم کرنے والی فوج ہے لیکن ہند کے مسلمانوں کاایک مقصد ہے۔ وہ پاکستان کی خاطر مرنے کے لیے تیار ہیں یہ امر باعث اطمینان ہے کہ مسلمانوں نے معاملات کو سمجھنا شروع کردیا ہے وہ پاکستان کو اپنی محبوب منزل گردانتے ہیں جب آپ قیام پاکستان کو موت و حیات کامسئلہ تصور کرتے ہیں ، جب آپ ہر دشواری کامقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں تو کوئی گٹھ جوڑ ، سازش کامیاب نہ ہوگی۔ ’’انہیں (مخالفین )کو پاگل ہوجانے دیں۔ ‘‘
(17جنوری1946ء پنجاب کے کالجز طلبہ سے خطاب )ہندو ہمیں پاکستان نہیں دے سکتا وہ تو خود غلام ہیں یہ آزادی ان سے لیناہے جو ہم پر مسلط ہیں ، پنجاب میں مکمل انقلاب برپا ہوچکا ہے۔ میں بچشم خود اس صورت حال کا مشاہدہ کررہاہوں ایک وقت تھاکہ پنجابی اپنی زبان پر پاکستان کانام لیتے ہوئے ڈرتے تھے۔ لیکن اب خوف کے سارے احساس ختم ہوگئے ہیں ، دیہاتی بھی نوکر شاہی سے خائف نہیں ،پنجابیوں نے اپنی روح کو دوبارہ پالیا ہے۔ ابھی بھی مشکل حالات ہیں۔ مسلط قوتوں کے احمق گماشتے اور بھاڑے کے ٹٹوؤں کا سیل رواں ہے۔ یہ دن دیہاڑے خوفناک ، سنگین اور مجرمانہ قسم کی مداخلت کرتے ہیں لیکن آپ کو پنجاب میں نوکر شاہی کے قلعے مسمار کرنا ہیں۔ طلبہ اور نوجوانوں سے کہاکہ آپ نے بڑا کام کیا ہے۔ میرے پاس تمغے اور زمینیں تقسیم کرنے کا اختیار نہیں آپ کا اجر یہ ہے کہ آپ بے حد خلوص کے ساتھ قوم کی خدمت جاری رکھیں۔ انتخابات ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہوںاور عوام اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں۔ یہ ہی پیغام طلبہ نوجوان گاؤں گاؤں پہنچادیں۔‘‘
قائداعظم نے آزادی کی تحریک میں خواتین کے جلسوں ، اجتماعات سے خطاب کیا۔ لاہور ، دہلی ، شیلانگ ، سلہٹ ،کلکتہ اور دیگر شہروں میں اہم خطاب کیے۔
’’ہر مسلمان خاتون کا فرض ہے کہ وہ حصول پاکستان کی جدوجہد میں مدد کرے ، آج مسلم خواتین میں زندگی کی نئی لہر دوڑ رہی ہے ،اْن کی کوئی قوم اپنی خواتین کی سرگرم اعانت کے بناترقی نہیںکرسکتی۔وہ پردے میںر ہ سکتی ہیں لیکن آزادی کاپیغام ببانگ دہل پردے کے اندر بھی پہنچ گیا ہے۔ آزادی کی تحریک نے مسلم خواتین کو اْمیدتشفی کا پیغام پہنچادیا ہے۔ آج ہر مسلمان گھرانے میں ،مردوں ، عورتوں اور بچو ںکا آئیڈیل ، روشن پیغام آزادی کا پیغام ہے ہرمسلمان خاتون اور بچے کو یہ علم ہے کہ ( نعرہ پاکستان کامطلب کیا لاالہ الا اللہ )خواتین میں ڈاکٹروں اساتذہ ، پروفیسرز کی تعداد کم ہے۔ یہ رجحان اچھا نہیں ہمارے سامنے عظیم کام ہے، جو بہت بڑا ہے خواتین کو ہر محاذ پر آگے بڑھناہے۔ خواتین کو زیور علم سے آراستہ کرنا ہے ، اپنے بچوں کو بھی پڑھانا ہے۔ قائد نے کہاکہ آزادی کی تحریک منزل کے قریب ہے اپنی کوششوں کو دوگنا بلکہ چارگنا کردیجیے اور اس وقت کی کمی پوری کی جائے جو ہاتھ سے نکل گیاہے۔ مردوں کے شانہ بشانہ چلیے اور قومی تعمیر میں اپناکردار ادا کیجیے۔ دنیاکی کوئی طاقت ہمیں پاکستان کے حصول سے باز نہیں رکھ سکتی اور ہم پاکستان چھین لیں گے۔ ( قائداعظم نے خواتین سے خطاب اردو میں کیا اور چند منٹ انگریزی میں بھی بولے ،ولولہ تازہ دیا)
21مارچ 1946سکھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنماؤں سے ملاقات میں قائداعظم نے فرمایا :’’میں آل انڈیا سکھ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر ، سیکرٹری اور سکھ نوجوانوں اور طلبہ پر واضح کردینا چاہتاہوں کہ بحیثیت ایک قوم سکھوں کو یہ حق حاصل ہے کہ ان کی بھی اپنی مملکت ہو اور میں اس کا مخالف نہیں ہوں ، آپ پر لازم ہے کہ یہ اعلان کردیں ،بتادیں کہ یہ مملکت کہاں قائم کی جائے گی۔ میں سکھوں کو یقین دلاتاہوںکہ سکھوں اور مسلمانوں میں مفاہمت کرانے کے لیے میں ہر اقدام کے لیے تیارہوں اور آمادہ ہوں۔ ‘‘ قائداعظم نے ہر ہر محاذ پر تحریک پاکستان کی ضروریات کو مکمل فہم بالغ نظر دور رس نگاہوں کے ساتھ ولولہ انگیز کردار ادا کیا۔ قائداعظم نے کشمیر کی صورت حال پر3 فروری 1946کو روزنامہ ہمدرد سرینگر کے نمائندہ سے کہا :’’میں نے اپنی تمام تر مصروفیات اور برطانوی ہند کے انتخابات کی مصروفیات کے باوجود کشمیر کے مسائل کو فراموش نہیں کیا۔ انہوںنے کہاکہ اہل کشمیر کی ابتلاء کاپوری طرح احساس ہے اگرچہ وہاں ظلم و ستم کے خلاف جدوجہد کابارزیادہ تر کشمیریوں کو اٹھانا ہوگا تاہم جب کبھی بھی موقع آیا وہ ان کی ہر طریقے سے ہمیشہ مدد کریں گے اور پْر اعتماد لہجہ میں کہا کہ مجھے یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب اچھے نتائج برآمد ہوں گے اور کشمیر کے لوگ سکھ کا سانس لیں گے۔ قائداعظم نے 26اکتوبر 1946ء کشمیر مسلم کانفرنس کے نام پیغام میں کہا ’’متحد رہیے ،بے لوثی، جانفشانی ، محنت اور منظم طریقے سے کام کیجیے اور میں آپ کویقین دلاتاہوںکہ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو آزاد ی کشمیر اور آپ کے منصفانہ ، جائزحقوق کے حصول سے نہیں رو ک سکتی۔ آپ کی جدوجہد میں مسلمانا ن ہند کی تمام تر ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں، میں آپ کی جدوجہد کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں۔ قائداعظم نے 2نومبر 1946کو کشمیری رہنماؤں کے وفد سے ملاقات میں کہاکہ یہ کشمیریوں کا بنیادی حق ہے کہ پْر امن طور پر اکٹھے ہوں۔ اظہار خیال کریں، اپنی شکایات پر بات کریں اور حکومت کی خرابیوں ، غلط اقدامات پر تنقید کریں۔ کشمیریوں کے ممتاز ترین رہنماؤں کی گرفتاری کی مذمت کی ، بغیر مقدمہ کے پابند سلاسل رکھنے کی بھی مذمت کی ، انتخابات سے قبل آزادیٔ اظہار رائے کو دبانے کی حکمت عملی ، دہشت گردی کے ذریعے آزادی رائے کاگلا گھونٹنے کے ناروا ہتھکنڈوں کے استعمال کی مذمت کی۔ ‘‘ قائداعظم نے فرمایا کشمیر ہماری اپنی شہ رگ ہے ایک قوم کے لیے اس سے بڑی غفلت کون سی ہوسکتی ہے کہ اس کی شہ رگ پر دشمن کا قبضہ ہو اور اسے پھر بھی چین کی نیند آتی ہو؟‘‘ اس تناظر میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ کشمیر کے مستقبل کامسئلہ دراصل خود پاکستان اور پاکستانیوں کے مستقبل کامسئلہ ہے۔ بھارتی استبداد ، فاشزم ، ظلم و جبر کے خلاف پاکستان اور پاکستانیوں کا فرض ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائے اور مظلوم کی مدد کرے۔ حکمران ،عوام اور پالیسی ساز آزادیٔ کشمیر کے لیے مستقل بنیادوں پر قائداعظم کی طے شدہ حکمت عملی کی روشنی میں پالیسی اور ایکشن پلان بنائیں۔ یہ امر بالکل متعین ہے کہ پالیسی کی بنیاد یہ ہو کہ مسئلہ کشمیر کے چار فریق ہیں۔ پاکستان ،ہندوستان، اقوام متحدہ اور سب سے اہم ریاست جموںوکشمیر کے عوام ہیں جنہیں اپنے مستقبل کافیصلہ کرنا ہے۔ کوئی کشمیریوں پر اپنا فیصلہ مسلط نہ کرے۔
قائداعظم نے عالم اسلام کے اہم ترین مسئلہ ، مسئلہ فلسطین پر بھی مختلف مواقع پر اظہار خیال کیا۔ 30جولائی 1946کو یونائیٹڈ پریس نمائندگان سے ملاقات میں فرمایا:’’مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے ‘‘ یہودیوں پر ظلم بند کیاجائے۔ یہ یہودیوں پر بڑا ظلم ہے کہ انہیں فلسطین میں دھکیلا جائے۔ دیانت کاتقاضا ہے کہ تبدیلی وطن کی خاطر یہودیوں کی فلسطین میں آمدکو ختم کردیاجائے۔ قائد نے کہاکہ انگلستان اور امریکہ فلسطین سے نکل جائیں اور عربوں اور یہودیوں کو لڑبھڑ کر اس مسئلے کو حل کرنے دیں۔ انہوںنے امریکہ کی مذمت کی کہ ’’نہ ان کاکوئی ضمیر ہے نہ انہیں عدل یا انصاف کاکوئی لحاظ ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ امریکی صہیونی امریکہ کو ناک سے پکڑ کر جدھر چاہتے ہیں لے جاتے ہیں۔ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے قائد نے کہاکہ فلسطین سے اینگلو امریکی اثر و رسوخ ختم ہوجائے ، یہودیوں کی آمد کا سلسلہ فلسطین سے ختم کیاجائے ، جو یہودی فلسطین میں پہلے سے آباد ہیں انہیں آسٹریلیا ، کینیڈا یا کسی ایسے ملک میں آباد کیاجائے جہاں گنجائش ہوا یسا نہ کیاگیاتو ان کی قسمت اس سے زیادہ خراب ہوگی جیساکہ ہٹلر کے تحت تھی۔ یہ امر واضح ہے کہ یہودی ،امریکہ اور انگلستان کی مدد سے فلسطین کو دوبارہ فتح کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اقدام کبھی مکمل نہ ہوگا اور عالمی امن تباہی سے دوچارہوگا۔ مسلمانان ہند خاموش تماشائی نہیں بنے رہیں گے ہر ممکن طریقے سے عربوں کی حمایت کریں گے۔
14/اگست یوم آزادی کاہمیں یہ ہی پیغام ہے کہ قیام پاکستان کے مقاصد کو جانیں۔ قائداعظم کی ہمہ گیر جدوجہد کوہر پہلو سے پہچانیں ، قیام پاکستان کے مقاصد کے مطابق آزاد پاکستان کو مثالی اسلامی ، فلاحی ،خوشحال مستحکم پاکستان بنائیں۔ 76واں یوم آزاد ی ایسے ہوجائے کہ ریاست ،سیاست ،پالیسی ساز ، سول سوسائٹی اور تمام اسٹیک ہولڈرز فیصلہ کن مرحلہ اور موڑ پر قومی ترجیحات پر اکٹھے ہوں ،کم ازکم نکات کے ایجنڈے پر اتفاق رائے کرلیں۔