مسئلہ کشمیر پر نوائے وقت کا درخشاں و تابندہ کردار

جی این بھٹ
مسئلہ کشمیر تقسیم ہند کا وہ نامکمل ایجنڈا ہے۔ جس کی وجہ سے آج تک 1947ء میں وجود میں آنے والے دونوں ممالک پاکستان اور ہندوستان میں دشمنی کی فضا قائم ہے۔ کچھ تو اس میں انگریز سامراج کی سازش بھی شامل تھی کچھ بھارت کی مکروہ چالبازی کہ کشمیر کی وسیع ریاست کو جو جغرافیائی لحاظ سے نہایت اہم اور معدنی دولت سے مالا مال ہونے کے علاوہ آبی وسائل اور جنگلات کا مرکز تھی اس کی سرحدیں، چین اور روس سے ملتی تھیں۔بھارت کابزور قوت اس پر قبضہ کر کے نئے وجود میں آنے والے مسلم ملک پاکستان کو محتاج رکھ کر اسے مسلسل دبائے رکھنے کی شاطرانہ چال تھی۔ 
قیام پاکستان کے ساتھ ہی روزنامہ نوائے وقت کو اس کے بانی جناب حمید نظامی نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور کشمیریوں کی حمایت کا ترجمان بنا دیا۔ کشمیر پر بھارتی افواج کے جبری قبضے اور وہاں کے مسلمانوں پر بھارتی فوج کے مظالم خاص طور پر جموں میں ہندو اور ڈوگرہ فورس کے ہاتھوں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتل لاکھوں کو زبردستی جموں سے نکالنے ان کی املاک کو لوٹنے اور خواتین کے اغوا اور بے حرمتی کے واقعات پر روزنامہ نوائے وقت نے جو تاریخی کردار ادا کیا وہ اردو صحافت کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ جناب حمید نظامی کا بے باک قلم نے مقبوضہ جموں اور کشمیر پر بھارتی قبضہ اور وہاں سے لاکھوں مسلمانوں کو زبردستی نکالنے اور ان کے قتل عام پر آواز بلند کی یہ نوائے وقت کا پہلا دور تھا کہ اس نے اپنے آغاز کے ساتھ ہی کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی میں توانا اور بھرپور آواز بلند کی۔ 
اس دور میں یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں بھی زیر بحث آیا کیونکہ اس خطہ میں نئی آزاد ریاستوں پاکستان اور ہندوستان کے مابین عملاً جنگ چھڑ چکی تھی۔ پاکستانی قبائل اور کشمیری مجاہدین کو کچلنے کے لیے بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہو چکی تھی۔ اس پر یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش ہوا تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنگ بندی کر کے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری سے کرنے کی قرارداد منظور کی۔ یہ قرارداد آج تک بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے تشنہ تکمیل ہے۔ اس پر نوائے وقت کے کئی ادارئیے اور مضامین لکھے گئے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ شاید ہی کوئی اور اردو اخبار اس سلسلے میں نوائے وقت کی ہمسری کا دعویٰ کر سکتا ہو۔ 
حمید نظامی مرحوم کے بعد جناب مجید نظامی نے جب اخبار کی ادارت سنبھالی تو کشمیر کی حمایت میں مزید تیزی آ گئی۔ انہیں خود کشمیری مجاہد تنظیموں، حریت پسند گروپوں اور آزاد و مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت نے کشمیریوں کے حق میں بلند ہونے والی سب سے موثر اور توانا آواز قرار دیا۔ انہیں کشمیریوں کا سب سے بڑا پشت بان قرار دیا۔ جناب مجید نظامی اسلام، پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے کسی سے کمپرومائز کرنے کی پالیسی کے سخت ناقد تھے۔ ان کی زندگی میں کسی کی جرأت نہ تھی کہ وہ اسلام پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے کوئی منفی بات کر سکے۔ نظریاتی سیاسی اختلاف کے باوجود ان کے تمام کشمیری سیاست دانوں حکمرانوں اور آزادی کی تحریک چلانے والوں سے بہت اچھے تعلقات رہے۔ وہ سب مسئلہ کشمیر پر جناب مجید نظامی اور نوائے وقت کے کردار کے معترف رہے ہیں۔ 
1989ء سے تحریک آزادی کشمیر نے ایک نئی انگڑائی لی اور کشمیریوں نے ہتھیار اٹھا کر شہروں، دیہات، جنگل وہ پہاڑوں میں بھارتی فوج کے چھکے چھڑا دئیے۔ ان کی مالی امداد کے لیے نوائے وقت فنڈ میں لاکھوں پاکستانیوں نے عطیات دئیے۔ جناب مجید نظامی کی ساری زندگی آزادی کشمیر اور تکمیل پاکستان کے قلمی جہاد میں صرف ہوئی۔ 
2019ء میں جب بھارت نے نہایت مکاری سے بھارتی آئین میں کشمیریوں کو دی گئی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا ۔ 
کشمیریوں سے ان کی شناخت چھین لی تو نوائے وقت نے روزاول سے ہی اپنے پہلے صفحے پر کشمیریوں کے حق خودارادیت اور بھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف اشتہار شائع کرنا شروع کیا جو آج پانچویں برس بھی مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ یہ اشتہار نہیں کشمیریوں سے نوائے وقت کی محبت کا بھرپور اظہار ہے۔ جناب مجید نظامی کے بعد محترمہ رمیزہ نظامی نے جس طرح کشمیریوں سے نوائے وقت کے رشتے کو مزید مضبوط کیا۔ عالمی سطح پر نوائے وقت، نیشن، فیملی، پھول و ندائے ملت کے ذریعے کشمیریوں کی ترجمانی کی وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ محترمہ رمیزہ نظامی نے اپنے والد کی پالیسی سے سرمو انحراف نہیں کیا بلکہ کشمیریوں کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔ 

ای پیپر دی نیشن