خالد بہزاد ہاشمی
صد شکر کہ پاکستانی قوم اپنا76واں یوم آزادی آج ملی جوش و خروش اور شایان شان طریقہ سے منا رہی ہے۔ ارض پاک کے گلی، کوچے، شاہراہوں، بازاروں، سرکاری و نجی عمارات سبز ہلالی پرچموں، بینرز، رنگ برنگی جھنڈیوں اور نظر کو خیرہ کرنے والے قمقموں اور آرائشی سامان سے سج چکی ہیں۔ اس موقع پر نوجوانوں اور خاص کر بچوں کا قابلِ رشک جذبہ حب الوطنی دیدنی ہوتا ہے، یہ ارض وطن ہمیں انگریزوں نے آسانی سے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا تھا اس کی بنیادوں میں لاکھوں شہیدوں کا لہو اور مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت شامل ہے۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر ہزارسال تک حکومت کی، مسلمان اور ہندو ساتھ رہے، اس ہزار سالہ دور حکومت میں مسلمان سلاطین اور بادشاہوں نے ہندوئوں کو مکمل مذہبی آزادی دی وہ چاہتے تو بزور طاقت و شمشیر انہیں مسلمان بنا سکتے تھے لیکن مسلمان بادشاہوں نے رواداری کی شاندار مثالیں قائم کیں اور مسلم حکمرانوں کے بیشتر وزیراعظم، مشیر، وزیر، اعلیٰ عہدیدار غیر مسلم رہے۔ جبکہ اسلام اولیاء کرام کی بدولت پھیلا۔ ہندوستان اشوک اعظم کے عہد کے سوا کبھی بھی متحد ملک نہیں رہا ہمیشہ چھوٹی بڑی ریاستوں اور راجواڑوں میں منقسم اور بٹا رہا، سب کی اپنی افواج، کرنسیاں اور قوانین ہوتے یہ وجہ مسلم حکمرانوں کی فتوحات میں سرفہرست تھی، آخری بدنصیب مغل فرنروا بہادر شاہ ظفر کی فرنگی سامراج کے ہاتھوں شکست اور سقوط دہلی کے بعد مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہ رہا اور وہ بیک وقت انگریز سامراج اور ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر آگئے۔تحریک آزادی میںہندومسلم دونوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن ہندوئوں کو یہ گمان تھا کہ مسلمان اقلیت میں ہو کر بھی انگریز سے اقتدار میںاپنا حصہ نہ لے لیں۔ ایسے میں قائداعظم محمد علی جناح کی گرجدار آواز سنائی دیتی ہے کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان دو قومیںآبادہیں۔رہن سہن، معاشرت، رسم و رواج اور مذہب سب ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں جبکہ ایک قوم کے ہیرو دوسری قوم کے ولن ہیں، قبل ازیں سر سید احمد خان بھی دو قومی نظریہ کے حوالے سے بہت واضح تحریری و زبانی اظہار کر چکے تھے۔
ہر چند مسلمان ایک ہزار سال تک ہندوستان کا حصہ بن کر رہے۔مگر یہ محروم اقتدار مسلم قوم کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں حضرت قائداعظم محمد علی جناح جیسے مایہ ناز بے لوث، محنتی، نڈر، اصول پسند لیڈر میسر آئے۔ جن کے آگے عیارفرنگی اور مکار بنیئے کی کوئی چال اور ترغیب کام نہ آسکی۔ قائداعظم نے قیام پاکستان کی جنگ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر لڑی، جس کے نتیجے میں پاکستان ریاست مدینہ کے چودہ سو سال بعد دوسری مملکت ہے جو اسلام اوردو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آئی۔
یہ23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک لاہور میں منظور ہونیوالی قرار داد پاکستان کااعجاز ہے کہ مملکت خداداد ارض پاک پاکستان کے نقوش واضح ہوئے اور برصغیر کے راندہ درگاہ مسلمانوں کو نشان منزل عطا ہوا اور قائداعظم کی ولولہ انگریز قیادت میں 14 اگست1947ء کو پاکستان کا وجود مسعود دنیا کے نقشہ پر اک شان سے نمودار ہوا اور برصغیر کے محکوم و مجبور مسلمانوں کو اپنے خوابوں کی تعبیر ملی۔ صد آفرین ہے اس بزرگ و مدبر قائد پر جن کے جنہوں نے اپنی صحت اپنے آرام کو ایک طرف رکھتے ہوئے قوم کے لئے لازوال قربانی کا باب رقم کیا اور گولی، بندوق، شمشیر کی بجائے صرف جمہور کی قوت سے پاکستان کی جنگ جیت کر دنیا میں مثال قائم کر دی کہ اسلام اور مسلمان پرامن دین اور قوم ہیں۔
آج جبکہ ہم اپنا 76واں جشن آزادی منا رہے ہیں اس موقع پر ارض پاک کو اندرونی اور بیرونی چینلجز کا سامنا ہے، سیاسی و معاشی عدم استحکام عروج پر ہے، بیرونی قوتوں کے آلہ کار ارض پاک کے دشمن اس مملکت خداداد کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں، سانحہ9مئی بھی اسی کا شاخشانہ ہے۔ جس کے ذمہ داروں کے خلاف شکنجہ کسا جا رہا ہے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانا ازحد ضروری ہے۔ ملک میں جب جشن آزادی کی تیاریاں جاری ہیں قومی پرچموں کی بجائے بعض جماعتوں کے سیاسی جھنڈے لہرانے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں جس پر پولیس ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ کسی کو بھی سیاسی پارٹی کا جھنڈا لیکر سڑکوں پر آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ شاہراہوں پر سیاسی پارٹی پرچم لہرانے والوں کے خلاف پولیس اور ضلعی انتظامیہ خصوصی نظر رکھے گی۔ ہم سب کیلئے ضروری ہے یوم آزادی کو قومی دن کے طور پر منائیں ناکہ اسے سیاسی رنگ دیا جائے،بلاشبہ زندہ قومیں اپنے قومی دن پرشکوہ اور شایان شان طریقے سے مناتی ہیں انہیں کس بھی سیاسی، لسانی، مذہبی عصبیت سے پاک ہونا چاہیے اور اس کیلئے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ ہونا چاہیئے۔
قوم کو اپنا76واں جشن آزادی مبارک ہو، جس طویل اور خون آشام جدوجہد کے بعد یہ خطہ ارض حاصل ہوااور اسلام کے جن درخشندہ اور روشن اصولوں کی جس پاسداری کوزندہ جاوید مثال بنتا تھا بدقسمتی سے اگرچہ وہ پورا نہ ہو سکا، لیکن مایوسی اور ناامیدی کفر ہے۔ پاکستان نعمت خداوندی ہے اور یہ قوم اپنے وطن کو خون جگر و خون دل سے سینچنا بخوبی جانتی ہے، جن لوگوں کو اس ارض پاک کی قدر نہیں اور انہیں دو قومی نظریے کا ادراک نہیں وہ ایک نظر بھارتی ریاست ہریانہ (میوات) میں ہونے والے مسلم کش فسادات اور بابری مسجد کے بعد متھرا، کاشی، گیا کی تاریخی مساجد کے تہہ خانوں کے بارے میڈیا پر بکے جانے والے ہذیان سے سبق سیکھیں کس طرح ہندستان میں ان تاریخی مساجد کوشہید کرانے کے لئے میڈیا ٹرائل کیا جا ہارہے۔