میاں محمد توقیر حفیظ
بانی پاکستان محمد علی جناح نے جس حصول کیلئے الگ وطن کا نظریہ پیش کیا اس کا مقصدصرف اور صرف یہی تھا کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو ایک الگ وطن مل جائے جہاں وہ آزادی کے سائے تلے اپنی زندگی کو آزادانہ طور پر بسر کر سکیں۔ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر معر ض وجود میں آیا جس کے قیام اور حصول کا واحد مقصد یہی تھا کہ اس ملک میں صرف اور صرف اللہ، اس کے رسول اللہ ﷺ کا قانون ہی نافذ العمل ہو،تاکہ مسلمان اسلامی ما حول میں آزادنہ زندگی بسر کر سکیں اور اس وطن عزیز کو ہم نے نہ صرف کلمہ طیبہ کی بنیا د پر حا صل کیا بلکہ مسلمان جو انگریز و ہندو کے زیر سایہ غلاما نہ زندگی گز ار رہے تھے اس سے مسلمانوں کو نجات دلا ئی جا سکے۔ زمین اللہ کی ہے اسلئے ضروری ہے کہ اس رو ئے زمین پر اللہ اور اس کے رسول اللہ کی شریعت کو نا فذ کیا جائے لیکن اس کے برعکس آج کچھ کرتا دھرتا امریکہ، بھارت کے تا بع حکمرانوں نے پاکستان کو مسائل کا گڑھ بنا کر ملک و قوم کو اندھیروں میں پھینک دیا ہے۔ اگر ہم جا ئز ہ لیں لفظ ”اسلامی جمہو ریہ پاکستان“ کاتو ہمیں بخو بی انداز ہ ہو گا کہ ان الفاظ میں سب سے پہلے اسلام ہے اس کے بعد جمہو ریت ہے اس کے بعد پاکستان ہے لیکن76سال کا عرصہ گزر جا نے کے بعد بھی آج پاکستان میں نہ ہی حقیقی اسلام ہے اور نہ ہی جمہو ریت صحیح طریقے سے اپنے پنجے گا ڑ ھ سکی ہے۔ ہما رے ملک کا آئین و دستور قرآن و سنت ہونا چاہئے۔ ہماری طرز زندگی بودوباش کا مرکز اسلامی قوانین اور اسلامی تہذیب و تمدن کے تحت ہونا چاہئے۔
قارئین کرام:قومی تاریخ کے درخشاں پہلو کسی بھی ملت کے فکر و عمل میں تحریک پیدا کر کے اسے اصل منزل کی جانب گامزن کر تے ہیں جبکہ اپنے شاندارماضی سے غفلت یا غلط فہمی میں مبتلا ہو نا قومی شعور کی نشو ونما اور خود اعتما دی کیلئے مہلک اور زہر قاتل ثابت ہوا کر تا ہے۔ اس لئے اسلاف کے کا رہا ئے نما یا ں کو آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے ا جا گر کر نا ضرو ری ہے۔ ہما ری تا ریخ درخشاں روا یات تا بندہ ما ضی روشن مستقبل اور عظیم الشان کا رنا موں پر مبنی ہے جو ہما ری قوم کا طر ہ امتیاز ہے۔ برصغیر پر مسلمانوں کے ایک ہز ار سالہ دو ر حکومت تا ریخ اسلام کا درخشند ہ باب ہے رسول کا ئنات کے تابعدار محبت دار انسان محبت رسول ، چا ہت رسول، الفت رسول اور مو دت دین میں اپنی دنیا ہی بد ل بیٹھے کا میا بیاں ان افراد اور ملت اسلا میہ کے قدم چو منے لگی پھر جب ہندوستان کے مسلمان حکمران اور عوام اسلام سے بے وفا ئی اور بد عہدی کر نے لگے تو کفار استعمار انگریز اور ہندو¿وں کے گٹھ جو ڑ کی صورت میں مسلمانوں پر عذاب الہٰی نا زل ہو ا۔ اب مسلمانان بر صغیر کے پاس عذاب سے نجات کا آخر ی اور ایک ہی راستہ اور حل موجود تھا یعنی قوم یو نس کی طرح اپنے رب کی طر ف سے غیر مشروط واپسی۔ یہی نظریہ پاکستان کی بنیاد بنا کہ پاکستان کا مطلب کیا؟لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ بر صغیر میں دو قومی نظریہ کی تر ویج بھی اسی فکر کی غماز ہے جس کی اصل روح، اساس، منبع اور سرچشمہ در اصل نظریہ اسلام ہے جس کی بنیاد نصوص قرآنیہ پر ہے.۔
قارئین کرام: بر صغیر میں دو قومی نظریہ ا کی اصل روح، اساس، سرچشمہ اور طاقت در اصل نظریہ اسلام ہی ہے۔ اسلامی نظریہ نے واحد نیت اور بنی آخر الز مان ? کی حتمی رسالت کو تسلیم کر نے والی امت مسلمہ کو خون، حسب و نسب برا دری قبیلے اور ذات و پات کی تمام تفریق ختم کر کے امت واحد ہ بنا دیا حتی کے دیگر اقوام اور امتوں سے افضل قرار دید یا گیا(سورہ البقرہ:143)با با ئے قوم نے فرما یا تھا ”وہ کونسا رشتہ ہے جس میں منسلک ہو نے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ وہ کونسی چٹان ہے جس پر انکی ملت کی عما رت استوا ر ہے وہ کو نسا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفو ظ ہے،وہ رشتہ وہ چٹان وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے ایک اللہ ایک رسول ایک کتاب ایک امت (اجلاس کر اچی 1943) ایک اور جگہ پر اپنے خطاب عام میں کہا کہ”پاکستان کے مطا لبے کا جذبہ محرک کیا تھا؟مسلمانوں کے لئے ایک جدا گا نہ مملکت کی وجہ جواز کیا تھی؟ تقسیم ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ نہ ہندوں کی تنگ نظری ہے نہ انگریزوں کی چال یہ اسلام کا بنیا دی مطا لبہ تھا“(مسلم یو نیو رسٹی علی گڑھ 8ما رچ 1944)ایک اور موقع پر فر ما یا ”میرا ایمان ہے کہ ہما ری نجات اسوہ حسنہ پرچلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کر نے والے پیغمبر اسلام نے ہما رے لئے بنا یا ہے ہمیں چا ہئے کہ ہم اپنی جمہو ریت کی بنیا دیں صحیح معنوں میں اسلامی تصوا رات و اصولوں پرر کھیں“(شاہی دربار سبی 14 فرو ری 1947) پھرفرمایا ”فتح با الآخر ہما ری ہو گی بشر طیکہ ہم قرآن کریم کو اپنے لئے ہدا یت اور طاقت کا سر چشمہ بنا ئے رکھیں اس کیلئے تیار بھی رہیں کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنا نا ہے“ (30 اکتو بر7 194 کو لا ہور میں قیام پاکستان کے بعد لا ہور کے یو نیو رسٹی گرا و¿نڈ میں خطاب عام)پھر فرمایا ”میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھ سکتا جو دیدہ دا نستہ اور شرا رتاً یہ پرا پیگنڈہ کر تے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیا د پر نہیں بنا یا جا ئے گا۔بانی پاکستان کو سیکو لر سمجھنے والے ا ب خود انکے فرمودات کا بغور جائز لے لیں کہ ان کی سوچ کیا ہے اور بانی پاکستان کی سوچ کیا تھی انکو خود ہی جواب مل جائے گا۔ اسلام شیشہ کی طرح صاف اور چمکدا ر ہے اور نا زک مزاج بھی کہ اگر شیشے کا وجود ٹو ٹ بھی جا ئے تو وہ با قی ضرور رہتا ہے یہی حال عقیدہ کا ہے کمز ور ہو جا نے پر بھی اس کی کوئی نہ کوئی جھلک کبھی نہ کبھی ضرور دیکھی جا سکتی ہے۔
قارئین کرام: زند ہ قومیں آ زادی کی خوا ہش رکھتی ہیں تا کہ ان کا عقیدہ اور اپنا سر ما یہ فکر زند ہ رہے یہی قوموں کی پہچان کا ذریعہ ہے”جو قو میں اس پہچان کو کھو بیٹھتی ہیں غلامی، گمرا ہی اور ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن جا تی ہے“۔بد قسمتی سے اکا برین پاکستان نے جس مقصد کیلئے پاکستان حا صل کیا تھا آج ہم76 بر س بیت جا نے کے بعد بھی اس را ستے پر گا مزن نہیں ہو سکے۔ اپنوں کی غفلت ہم کو لے ڈوبی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملک پاکستان کو اندرو نی و بیر ونی خطرات نے گھیر رکھا ہے۔ کہیں ختم نبوت کے چو ر اور ڈا کو گھا ت لگا ئے بیٹھے ہیں اور کہیں منکرین حدیث نبو ی خیمہ زن بیٹھے ہو ئے ہیں۔ کچھ جہالت میں غرق پاکستان کا ما ٹو لا الہ الا اللہ کا انکار کر کے سیکو لر پاکستان کا نظریہ و نعرہ لگا رہے ہیں۔ کچھ نظریہ پاکستان ہی کو حر ف غلط کی طرح مٹا اور دفن کر کے کنفیڈریشن کی با تیں کر رہے ہیں۔ تو کچھ باطل ہا ئے طا قتیں آقائے کا ئنات ?، فخر موجو دات کی ذات گرامی کی عزت و نا موس پر حرف گیری کی اجا زت کے لئے نا موس رسالت قانون کو ختم کر نے کی تیا ریاں کر رہے ہیں۔ہم بحیثیت مسلمان غیر ملکی ثقافت اور ہند و وانہ کلچر کی یلغار فلموں، ڈراموں کی بھر ما ر اور انڈیا کے غلبہ وتسلط کوغیر شعوری طو ر پر قبول کر تے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے با ڈرز (سر حدیں) غیر محفوظ اور پاک سر زمین پر یہو دی عیسا ئی ہندو غنڈے دا خل ہو کر متحرک ہو چکے ہیں اور پاکستان کو ہڑپ کر نے کے لئے منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ پاک سر زمین کو بنجر و ویران بنا نے کے لئے ہندو غنڈو ں نے پا نی کی بند ش کا بحران کھڑا کر دیا ہے۔ پاک فو ج کو اپنی عوام اور سر زمین پر جنگ میں جھو نک دیا گیا ہے۔ تعلیمی نظام کو اغیا ر کے ہا تھ دیکر غیرت ایمانی کا جنا زہ نکا ل دیا گیا ہے۔ ملکی فیڈریشن کو خطرات سے دو چار کر نے کے لئے پنجا بی، سندھی، بلو چی اور پٹھان میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔
قارئین کرام:اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک منفرد محل وقوع، جغرافیائی،معدنی وسایل اور نظریاتی تشخص کے ساتھ ساتھ ثقافتی وجود رکھتا ہے۔پاکستان زراعت،قدرتی وسائل،معدنی وسائل جیسی عظیم نعمتوں سے مالا مال ہے اس کے باوجود بھی اپنے ملک کی نعمتیں بد اخلاق سیاستدانوں کی مرحون منت اپنی ہی قوم پر تنگ ہو چکی ہیں مہنگائی کا سیلاب ہے ہر طرف طوفان بدتمیزی ہے۔غنڈہ گردی،لوٹ کھسوٹ،جرائم نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے ابھی تک یہ ملک اور اس کی قوم جہالت اور گمراہی کی دلدل سے باہر نہیں نکل سکی۔ہمارا نظام تعلیم مکمل تباہ ہو چکا ہے۔سرکاری محکموں میں رشوت، سود ی لین دین عام ہو چکا ہے۔ہم لوگ نظریاتی تشخص کا دفاع کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔غربت، تنگدستی،جہالت ہمارے مسائل ہیں جن سے نکلنا ناممکن ہو چکا ہے۔قومی سطح پر ہم ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اس حوالے سے ہمارے پالیسیاں ملکی و قومی مفاد میں نہیں بلکہ ذاتیات تک محدود رہ گئی ہیں۔ملکی و قومی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے نہ ہمارے سیاستدان، علمائے کرام، دانشور، قوم ایک منج پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ہر کوئی اقتدار کی ہوش میں اندھا دھند بھگا چلا جا رہا ہے۔ اقتدار کی کشمکش میں رسہ کشی جا ری ہے سیاستدانوں نے قوم کو تقسیم در تقسیم کرکے ان کے ذہنوں میں زہر گھول دیا ہے۔ اسوقت قوم کی سیاسی،معاشی،عدالتی،معاشرتی اصلاح کے ساتھ ساتھ اخلاق کی ضرورت تھی جس کا بہت بڑا فقدان ہم آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کو حقیقی معنوں میں عالمی سطح پر مضبوط قوت و طاقتور کے طور پر سامنے آنا چاہئے تھا لیکن افسوس۔
اللہ تعالیٰ ہما رے ملک کو امن و امان کا گہوارا بنائے دشمن کے ناپاک چنگل سے محفوظ رکھے اللہ تعالیٰ ہما را حامی و ناصر رہے آمین ثم آمین