مضمون نگار: رانا ضیاءجاوید جوئیہ
ای میل: ranaziajaved@yahoo.com
قارئین گرامی 14 اگست 1947 کو رمضان کے با برکت مہینے میں اللہ کریم نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک آزاد اسلامی مملکت پاکستان سے نوازا اس وقت ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے پورے جوش و جزبہ سے جدوجہد آزادی میں حصہ لیا حتی کہ ان علاقوں کے مسلمان جنہیں پتہ تھا کہ ہندو اکثریتی علاقے ہونے کی وجہ سے ان کے پاکستان میں شامل ہونے کی کوئی امید تک نہی بھی جدوجہد آزادی میں نمایاں کردار ادا کرتے نظر آئے اس وقت صرف اور صرف خدا پہ ایمان اور خلوص نیت نے انہیں ایک قوم بنا دیا مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں ہزاروں میل فاصلہ ہونے کے باوجود بھائی چارہ اور ایک قومیت نظر آئی اس وقت ہمارے آباو اجداد کے جزبوں کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ پاکستان بنتے وقت لاکھوں لوگوں نے اپنے کاروبار ، زمینیں اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان ہجرت صرف اس لئے کی کہ وہ ایک ایسے ملک میں بھوکا رہنا بھی پسند کر لیں گے جہاں اسلام ہو اور پھر پاکستان بننے کے بعد انگریز اور ہندو نے مل کر پاکستان کے لئے ایسے مسائل کھڑے کر دیئے کہ جزبے سلامت نہ ہوتے تو پاکستان قائم ہی نہ رہ پاتا کیونکہ کہیں نہری پانی کی تقسیم کا مسئلہ بنایا گیا،کہیں اثاثوں کی تقسیم کے مسائل پیدا کئے گئے، کہیں ریڈکلف ایوارڈ میں بد نیتی اور سازش کے تحت کشمیر کا راستہ بھارت کو دے دیا گیا اور تو اور فوج کی تقسیم میں اتنی دیر کی گئی کہ جب پاکستان بن گیا تو پاکستان کے حصے کی فوج ابھی بھارت ہی میں تھی اور پاکستان میں صورتحال اتنی خراب تھی کہ سرکاری ملازمیں کو تنخواہیں دینے کے لئے بھی پیسے حکومت کے پاس نہ تھے اور ریاستوں کے نوابوں نے سرکاری ملازمیں کو تنخواہ کی ادائیگی میں حکومت پاکستان کی مدد کی ایک طرف اتنے خراب حالات اور دوسری طرف لاکھوں مہاجرین کی آباد کاری جیسے مسائل لیکن اللہ پاک کے فضل و کرم سے ہمارے آباو اجداد نے پر خلوص محنتوں اور جزبوں سے کام لیتے ہوئے نہ صرف ان تمام مسائل پر قابو پا لیا بلکہ ابتدائی سالوں میں پاکستان نے اقتصادی طور پر بھی تاریخی ترقی کی لیکن دشمن بھی ہم پہ نظر رکھے ہوئے تھا اور دشمن نے ہمارے وطن عزیز کو تباہ کرنے کے لئے مشرقی پاکستان میں ہندو اساتذہ کے ذریعے بچوں کے ذہنوں میں پاکستان کے خلاف نفرت بھرنا شروع کر دی اور ساتھ ہی ساتھ شروع کے سالوں میں ہی بنگلہ زبان کو سرکاری زبان بنانے کا نعرہ دشمن نے ہمارے معصوم بھائیوں کے ذہنوں میں ڈالا اور دوررس منصوبہ بندی پر کام شروع کر دیا لیکن مغربی پاکستان کے لوگوں نے اس مسئلے کی سنگینی کو محسوس کرنے میں بہت دیر کر دی اور نفرتیں بڑھتی گئیں۔
کشمیر کا جو مسئلہ ریڈکلف ایوارڈ کے ذریعے پیدا کیا گیا تھا پاکستان کے مجاہدین نے دشمن کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے آدھا کشمیر ہندو سے آزاد کروا لیا اور قریب تھا کہ باقی کشمیر بھی پاکستان آزاد کروا لیتا بھارت نے اقوام متحدہ میں استصواب رائے کا وعدہ کر کے اقوام متحدہ کے ذریعے جنگ بندی کروا لی یہاں پر مسئلے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اس وقت پاکستان کے آرمی چیف جنرل گریسی نے کشمیر کے حوالے سے قائداعظم کے احکامات نہی مانے تھے اس کے بادجود پاکستان نے آدھا کشمیر آزاد کروا لیا ہماری بدقسمتی کہ ہمارے مخلص ترین رہنما قائداعظم محمد علی جناح پاکستان بننے کے تھوڑے عرصہ بعد اس دنیائے فانی کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے اور نوابزادہ لیاقت علی خاں بھی شہید کر دئے گئے اور خواجہ ناظم الدین جیسے مخلص رہنما کو گورنر جنرل کے طور بھی اور وزیر اعظم کے طور پر بھی اختیارات استعمال ہی نہ کرنے دئے گئے اور ملک میں آئین سازی میں بھی تاخیر کر دی گئی ملک جو ابتدائی مسائل پر قابو پا گیا تھا پھر سے مسائل کا شکار ہونا شروع ہو گیا لیکن یہ مسائل اور نوعیت کے تھے ایک نیا فتنہ قادیانیت کے روپ میں سامنے آیا اور سب سے بڑی بات کہ آزاد ہونے کے باوجود ہماری ملکی انتظامیہ نے مکمل طور پر انگریز کی پیروی کی انگریز کا مقصد ملک کے لوگوں کو ڈرا کر رکھنا انکے وسائل کو برطانیہ شفٹ کرنا وغیرہ تھے وہی ڈرانے والے روئیے ہمارے اپنے لوگوں نے اختیار کر لئے اور وہی وسائل کی لوٹ مار کر کے اپنے وسائل کو دوسرے ملکوں میں منتقل کرنے کا کام ہمارے اپنے لوگوں نے شروع کر دیا
لیکن ہم پہ اللہ کریم کا فضل یہ رہا کہ جب جب ہم مسائل کا شکار ہوئے اللہ کریم نے ہمیں مواقع دئے 1965 میں جب بھارت نے پاکستان پر قبضہ کرنے کے لئے جنگ شروع کی تو ہم ایک بار پھر ایک قوم کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور ہمارے سوئے ہوئے جزبے پھر سے جاگ اٹھے اور پوری قوم فوج بن گئی اور دشمن کو منہ توڑ شکست ہوئی اسی عرصہ میں ہم نے تربیلا اور منگلا ڈیم جیسے بڑے پراجیکٹس شروع کئے اور قائد اعظم اور پنجاب یونیورسٹی جیسی یونیورسٹیوں کو 1700 ایکڑ فی یونیورسٹی دئے اور ہم نے اسی عرصہ میں کوریا اور انڈونیشیا جیسے ممالک کو امداد بھی دی لیکن بدقسمتی سے ہم دشمن کے عزائم کو بھانپ نہ سکے جس کی وجہ سے ہم دشمن کی منصوبہ سازیوں کے بادجود انتہائی غیر ذمہ دار رہے اور ہم نے مشرقی پاکستانی بھائیوں کے زہنوں میں بڑھتی نفرتوں کو ختم کرنے کے لئے کچھ بھی نہ کیا اور ہماری تاریخ کا بد ترین دن 16 دسمبر 1971 جب مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا اور بھارتی وزیر اعظم کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے ہماری تاریخ کا یہ بہت بڑا سانحہ ہے جس سے ہمیں آج بھی بھی سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس کے بعد افغانستان پر روس کی چڑھائی کے وقت یہ خطرات پیدا ہوئے کہ روس افغانستان کے بعد گرم پانیوں تک رسائی کے لئے ہمارے بلوچستان پر بھی قبضہ کر سکتا ہے جس کی وجہ سے افغانستان کی جنگ ہمیں لڑنا پڑی اور اس جہاد افغانستان کے ذریعے روس کو تو ہم نے تکڑے تکڑے کر دیا اور روس میں موجود مسلم علاقوں کو بھی علیحدہ آزاد اسلامی ممالک بنوا دیا لیکن اس کی بہت بھاری قیمت ہمارے وطن عزیز کو ادا کرنا پڑی اور آج بھی ہم اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں ہمارے ملک میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بھی انہی کی وجہ سے خراب تر ہے اور ہماری اقتصادیات بھی اسی وجہ سے مزید تباہ ہو رہی ہیں لیکن اس میں بھی اللہ کریم نے ہمیں نوازا کیونکہ جہاد افغانستان میں امریکہ وغیرہ کے مفادات اور دلچسپیاں تھیں اور انہیں ہماری ضرورت تھی اس لئے ہمارے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے انہوں نے آنکھ بند رکھی اور اس ایٹمی پروگرام کا فائدہ ہمیں یہ ہوا کہ یہ سب برے حالات کے باوجود ہماری بقا کا ضامن بن گیا اس حوالے سے مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں شاید 1984 میں جب میں پرائمری سکول میں تھا ہم نے سنا کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے اور اس نے ساری افواج بارڈر پر موو کر دی ہیں، پھر سنا کہ پاکستان کے صدر مملکت بغیر دعوت کے میچ دیکھنے کے بہانے بھارت چلے گئے اور انہوں نے بھارتی وزیر اعظم کے کان میں شاید صرف اتنا کہا کہ ایٹمی جنگ کی وجہ سے پاکستان تباہ بھی ہو گیا تو مسلمان دنیا کے بہت سے مسلم ممالک میں موجود رہیں گے لیکن ایٹمی جنگ میں بھارت کی تباہی کی صورت میں دنیا میں ہندووں کا واحد ملک بھی تباہ ہو جائے گا اور ہندو دنیا سے ختم ہو جائیں گے پھر ہم نے دیکھا کہ کان میں کہی گئی اس بات کی وجہ سے بھارت اپنی افواج کو واپس لے گیا ۔
اللہ کریم کے فضل و کرم سے آج پاکستان واحد اسلامی مملکت ہے جسے ایٹمی قوت ہونے کااعزاز حاصل ہے اور ہمیں ملک میں رہتے ہوئے احساس نہی ہوتا کہ دنیا بھر کے مسلمان کس طرع ہمیں امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں مجھے اس بات کا اندازہ تب ہوا جب 2019 میں بھارتی طیاروں کی دراندازی اور ہمارے موثر جواب والا معاملہ پیش آیا اس وقت میں مسجد نبوی صل اللہ علیہ وسلم میں تھا اس وقت کیا ترکی، کیا مصری، کیا سعودی بلکہ تقریبا تمام اسلامی ممالک کے مسجد نبوی صل اللہ علیہ وسلم میں موجود لوگ بہت پریشان تھے وہ نہ صرف پاکستان کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے تھے بلکہ وہان موجود مجھ جیسے پاکستانیوں سے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ان شائ اللہ پاکستان قائم رہے گا وغیرہ یقین مانئے گا کہ اس وقت یہ احساس ہوا کہ پاکستان دنیا بھر کے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز و محور ہے اور واقعی آج غزہ کے مسلمان بد ترین اسرائیلی مظالم کا شکار ہیں اگر صدر ضیائ کی طرع آج کے حکمران اسرائیل کو صرف اتنا کہہ دیں کہ اگر اس نے ہمارے مسلمان بھائیوں پر ظلم و ستم کاسلسلہ بند نہ کیا تو پھر ہم ایٹمی قوت کا استعمال بھی کر سکتے ہیں تو اسرائیل نہ صرف اپنے مظالم سے باز آ جائے گا بلکہ پچھلے ظلم و ستم پر باقاعدہ معافی بھی مانگے گا ضرورت ہے تو صرف اس بات کی کہ تمام امت مسلمہ کوبھائی سمجھا جائے اور کسی بھی مسلمان پر ہونے والے ظلم کو ہر مسلمان پر ظلم سمجھا جائے تو پھر دنیا بھر میں عدل و انصاف کی حکمرانی ہو جائے گی
ہمارے ادارے بھی اور ہمارا سیاسی نظام بھی عدم استحکام کا شکار ہے اور یہ عدم استحکام مستقل نہی ہے اسے استحکام میں بدلا جا سکتا ہے جس کے لئے ضرورت صرف اور صرف ہمیں اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرنے کی ہے اگر ہم میں یہ قومی احساس ذمہ داری پیدا ہو جائے تو پھر نہ عدلیہ غلط رہ سکتی ہے، نہ سیاسی قوتیں غلط رہ سکتی ہیں اور نہ ہی فوج ہمارے سیاسی نظام کو درست رکھنے کے نام پر کوئی مداخلت کر سکتی ہے پھر نہ کوئی بیوروکریسی رشوت لے سکتی ہے نہ ہی پارلیمنٹ اپنی قانون سازی والی ڈومیں سے باہر نکل سکتی ہے بس ضرورت ہے تو ہمیں خود کوبدلنے کی ضرورت ہے
بقول علامہ محمد اقبال
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
اسی طرح بقول شاعر
شان یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کی
کہ صبج شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
بلا شک و شبہہ افراد سے ہی اقوام بنتی ہیں اور جب افراد اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں تو قوم خود بخود شان و شوکت اور عظمت حاصل کر لیتی ہے اس کی سب سے بڑی مثال یہی ہے کہ جب رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی تربیت کی اور انہیں بہترین افراد بنایا تو مسلمان ایک بہترین قوم بن کر سامنے آئے اور انہوں نے بالکل محدود وسائل کے ساتھ بڑی بڑی عظیم الشان سلطنتوں کو واضح شکستیں دیں اور ساتھ ساتھ سائینس میں بھی تاریخ رقم کی صرف چند سال کی افراد کی تربیت نے ایک نئی قوم اور نئی تاریخ رقم کر دی ۔
آج 1947 سے لے کر 2024 تک پاکستان نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ،بہت مشکل حالات بھی دیکھے لیکن آج ہمیں بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ پاکستان ہر شعبے میں تنزلی کا شکار ہے ، پاکستان میں عدم برداشت بہت بڑھ گئی ہے، مزہبی، لسانی فرقہ وارانہ تعصبات نے بظاہر ہم پاکستانیوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے لیکن ہم کلمہ توحید کی طاقت سے جڑے تھے اور ان شاءاللہ جب ہم نے اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے تحت بسر کرنا شروع کر دیا تو ان شاءاللہ ہم پھر سے جڑ جائیں گے
بقول شاعر
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہی
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہی
ہمیں ربط ملت کی ضرورت آج بہت زیادہ ہے اور اپنے دریا یعنی اسلام میں واپس جانے اور رہنے کی ضرورت ہے اگر ہم ملت بن گئے تو یقین کیجئے گا پھر نہ بے روزگاری رہے گی، نہ سیاسی عدم استحکام رہے گا، نہ عدل و انصاف کوئی مسئلہ رہے گا ، نہ ہی نفرتیں رہیں گی بلکہ سب ایک ملت بن کر تمام مسائل پر ایک دن میں قابو پا لیں گے
بات لمبی ہو گئی اخبار کے آرٹیکل کے حوالے سے اس لئے اسے سمیٹنے کی طرف آتا ہوں سب سے پہلی ضرورت آج ہمیں ملت بننے کی ہے اور ملت ہم تب ہی بنیں گے جب ہم اسلام کو اپنا مرکز و محور بنا لیں گے، دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم پاکستان بنانے کی ضرورت کے حوالے سے اپنی نوجوان نسل کو آگاہی دیں صرف 14 اگست کی چھٹی منا لینے اور جھنڈیاں لگانے یا لائیٹنگ کرنے سے کچھ فائدہ نہ ہو گا فائدہ یو گا تو صرف اسی صورت کہ ہم اپنی نوجوان نسل اور بچوں کو قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کرنے کے لئے ایک پوری مہم چلائیں اور گھر سے لے کر سکول کی سطح بلکہ ہر سطح پر تمام پاکستانیوں کو قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کریں اور ساتھ ہی یہ تسلیم بھی کریں کہ جانے انجانے میں ہم مقاصد سے دور ہٹ گئے تھے جس کی وجہ کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ شاید پاکستان بننے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ہم انہیں تاریخ بھی بتائین اور ان کے ساتھ مل کر یہ عہد بھی کریں کہ ہم پاکستان کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے پھر سے قیام پاکستان والے جزبہ سے کام کریں گے ہم انہیں اغراض و مقاصد سے آگاہی کے ساتھ ساتھ اس وقت کے مسلمانوں کی دی گئی تاریخی قربانیوں سے بھی آگاہ کریں اور پاکستان کچھ ایسا کر کے دکھائے یعنی واقعی ایسا مرکز بن جائے جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی امیدوں پر پورا اتر سکے اور پاکستان میں اسلامی تعلیمات کے مطابق لوگوں کی زندگیوں کو آسان بنائیں، نفرتوں کی بجائے محبتوں کو پھیلائیں ، ملک میں عدل و انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں، بڑھتی ہوئی اقتصادی تفاوت کو ختم کر کے ہر ایک کے لئے ضروریات زندگی کا باآسانی حصول یقینی بنائیں ، ہمارے حکمران ہم ان لوگوں کو بنائیں جو خلفائے راشدین کی پیروی کریں اور اپنی اقتصادی ترقی کی بجائے عوام کی اقتصادی ترقی کو اپنا مقصد رکھتے ہوں اور ہر ایک کو تعلیم صحت اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات با آسانی مل سکیں اور یہ سب خواب ہیں اب تک لیکن یہ خواب پورے ہو جائیں گے اس روز جس دن ہم ربط ملت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
آئیے آج ہمارے اس یوم آزادی کے حوالے سے ہم یہ عہد کریں کہ ہم منفی رویئے چھوڑ کر، دوسروں پر اور ملک پر تنقید کرنے کی بجائے تعمیری انداز اپنا کر اپنی اصلاح کریں گے اور اپنے گھر والوں کی اصلاح کریں گے اگر ہم سب دوسروں اور ملک پر تنقید کرنے والا وقت اپنی اصلاح پر لگا دیں اور اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھال لیں گے تو پھر ہم اسلام کے ابتدائی دور والی تاریخ ایک بار پھر دہرا سکیں گے اور پاکستان کو پھر ہم اتنا مضبوط بنا سکیں گے کہ دشمن ہمارے خلاف کچھ کرنے کا سوچ بھی نہی سکے گا اور ہم جب پاکستان کو حقیقی معنوں میں پاکستان بنا لیں گے تو پھر ہماری اگلی نسلیں بھی ہماری پچھلی نسل کے پاکستان بنانے کے فیصلے پر انہیں خراج تحسین پیش کریں گی اور پھر پاکستان دنیا بھر کے مسلمانوں میں ربط ملت پیدا کرنے میں مضبوط کردار ادا کر کے اتحاد عالم اسلامی کو ممکن بنا سکے گا اور جس دن اتحاد عالم اسلامی ہو گیا اس دن دنیا بھر کے مسلمان مکمل طور پر محفوظ ہوں گے۔
14 اگست 1947 سے 14 اگست 2024 کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں
Aug 14, 2024