آج 14 اگست ہے۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ ”اِس سے قبل ہندوﺅں کی دہشت گرد تنظیم ”راشٹر سیوم سیوک سنگھ“ (آر ایس ایس)، متعصب ہندو جماعت ”انڈین نیشنل کانگریس“ سکھوں کے مسلح جتھوں اور دوسری غیر مسلم تنظیموں نے مختلف صوبوں میں 18 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام کِیا اور 95 ہزار سے زیادہ مسلمان عورتوں کو اغواءکر کے ان کی آبرو ریزی کی۔
مشرقی (اب بھارتی) پنجاب میں سِکھوں نے 10 لاکھ مسلمانوں کو شہید کِیا اور 55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغواءکرکے ان کی عصمت ریزی کی۔ ہمارا خاندان مشرقی پنجاب کی سابق سِکھ ریاست ”نابھہ“ میں آباد تھا۔ تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن میرے والد صاحب، رانا فضل محمد چوہان”لٹھ باز“ تھے اور وہ ، "Muslim National Guards" کو ”لٹھ بازی“ (یعنی۔ لاٹھیوں سے لڑنے کا فن) سِکھایا کرتے تھے۔ پھر ہمارا خاندان مشرقی پنجاب کی مسلمان ریاست ”مالیر کوٹلہ“ منتقل ہوگیا تھا۔
”مالیر کوٹلہ کے محافظ !“
”نواب آف مالیر کوٹلہ“ کے فوجی دستے کی نگرانی میں دو اڑھائی سو مسافروں (مہاجروں) کی ٹرین قصور کے لیے روانہ ہوئی تو، ہمارا خاندان بھی اس ٹرین میں سوار تھا۔ راستے میں ہر ریلوے سٹیشن پر کرپانیں لہراتے اور ”ست سری اکال، جو بولے سونہال“ کے نعرے لگاتے ہوئے سِکھوں نے ٹرین کو روکنے کی کوشش کی لیکن ٹرین کے محافظ فوجی دستے کی فائرنگ سے انہیں ٹرین پر حملہ کرنے کی جرا¿ت نہیں ہوئی۔ پھر ڈرائیور کو ٹرین روکنا پڑی کیوں کہ اس سے آگے سِکھوں نے ریل کی پٹڑی کو اکھاڑ دِیا تھا۔ ٹرین کے محافظوں نے تمام مسافروں کو ایک کھلے میدان میں جمع کر لِیا تھا۔ مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا۔ سخت طیش میں نعرے لگاتے ہوئے سِکھوں کے کئی جتھے ہمارے قریب آ رہے تھے کہ اچانک اچانک ٹرکوں پر سوار ”بلوچ رجمنٹ“ کے افسران اور جوان۔ ”نعرہ تکبیر۔ اللہ اکبر“۔ کی گونج میں وہاں پہنچ گئے۔ سِکھوں کے جتھوں کو ہمارے قریب آنے کی جرا¿ت نہ ہوئی۔ اس وقت میری عمر تقریباً 11 سال تھی جب، مَیں نے پاکستان کی فوج۔ اپنی محسن فوج۔ اپنی بلوچ رجمنٹ کو قریب سے دیکھا۔
”ریاست پٹیالہ!“
ریاست پٹیالہ کے آنجہانی راجا، ”یادویندر سنگھ“ کی نگرانی میں سِکھوں نے ، ریاست پٹیالہ کے مختلف علاقوں میں اڑھائی لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کِیا تھا اور لا تعداد مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی تھی۔ تحریک ِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن جسٹس جمیل حسین رضوی ”آل انڈیا مسلم لیگ“ کے قائدین میں سے تھے جنھوں نے پٹیالہ کے مسلمانوں کو، سِکھوں کی دہشت گردی سے بچانے کے لیے اہم کردار ادا کِیا تھا۔ سیّد رضوی صاحب کے صاحبزادے سینئر ایڈووکیٹ، سیّد ضیاءحیدر رضوی بھی اپنے والد ِ محترم کی طرح فلاحی کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں۔
تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن، درگاہِ حضرت مجدد الف ثانی سرہند شریف کے قاضی ظہور الدّین (مرحوم) نے بھی ریاست پٹیالہ کے قریہ قریہ جا کر قائداعظم اور مسلم لیگ کے پیغام کو مختصر معنوں میں لوگوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کِیا۔ قاضی صاحب ، نامور صحافی برادرِ محترم جمیل اطہر قاضی کے چچا تھے۔ جمیل اطہر صاحب بھی اپنے چچا کی طرح نظریہ پاکستان کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
” ضلع امرتسر!“
آپ نے ہر سال 12 جون کو، اسلام آباد میں جنابِ مجید نظامی کے مرید خاص، (چیئرمین پاکستان کلچرل فورم) میرے دوست ظفر بختاوری (کے والد مرحوم ) ”قائداعظم کے سپاہی اور سراپا شفقت ، چاچا بختاوری (امرتسری) کے بارے، میرا کالم پڑھا ہوگا اور ضلع امرتسر کے تحریک پاکستان کے کئی نامور کارکنوں کا بھی۔ خاص طور پر تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ ) کارکن ڈاکٹر سیّد علی محمد شاہ امرتسری (”نظریہ پاکستان ٹرسٹ“ کے سیکرٹری سیّد شاہد رشید (اب مرحوم) کے دادا جی ) اور 1965ءسے میرے لہوری دوست مرزا شجاع الدّین بیگ امرتسری (چیئرمین پیمرا پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ کے والد محترم)کا تذکرہ بھی، جن کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہوا شہید ہوگیا تھا اور نامور قانون دان اور سیاستدان ملک حامد سرفراز (مرحوم) امرتسری کا بھی۔
” شہدائے پاک فوج!“
مَیں فوجی آمروں کی بات نہیں کرتا، مَیں تو آج 14 اگست کو ”شہدائے تحریک پاکستان“ اورپاک فوج کے ان شہیدوں کو بھی سلام پیش کر رہا ہوں، جو ہر دَور میں پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرتے یا اندرون ملک دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں۔ ستمبر 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دَوران مَیں نے دو ملّی نغمے لکھے۔ ایک نغمہ تو ، ہر روز ریڈیو پاکستان سے نشر ہو رہا تھا۔ 1992ءسے میرے دوست، سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات، سیّد انور محمود گیلانی جنوری 1999ءمیں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ڈائریکٹر جنرل تھے کہ جب انھوں نے کئی شاعروں کے ملّی ترانوں از سر نو ریکارڈ کرایا، اس میں ایک ملّی ترانہ میرا بھی تھا جسے پٹیالہ گھرانہ کے نامور گلوکار جناب حامد علی خان نے گایا۔ نغمے کا عنوان، مطلع اوربند یوں ہیں....
اے مادرِ وطن ترے پیاروں کی خیر ہو
زہرہ نگاروں، سینہ فگاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!
یوں حسنِ لازوال سے، رَوشن ہیں بستیاں!
جیسے کہ آسمان سے ،اتری ہو کہکشاں!
تیرے فلک کے، چاند ستاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!
مٹی کا تری رنگ، زَر و سیم کی طرح!
دریا رَواں ہیں، کوثر و تسنیم کی طرح!
جنت نشان ،مست نظاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!
دنیا میں بے مثال ہیں، ارباب فن ترے!
ہر بار فتح یاب ہوئے، صف شکن ترے!
شاہ راہ حق کے ،شاہ سواروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
پھیلے ہوئے ہیں، ہر سو وفاﺅں کے سِلسلے!
ماﺅں کی پر خلوص دعاﺅں کے سِلسلے!
مضبوط ، پائیدار، سہاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو
”اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!“
Aug 14, 2024