یہ کیسا پاکستان۔۔۔؟

 آج قوم آزادی کی 77ویں سالگرہ منا رہی ہے گھروں پر سبز ہلالی پرچم لہرا رہے ہیں سرکاری ونجی عمارتوں کو پاکستانی پرچم کے رنگ کی لائٹوں سے مزین کر دیا گیا ہے جہاں تک جوش وجذبہ کا معاملہ ہے تو وہ بھی قابل دید ہے نوجوان آذادی کا جشن مناتے مناتے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں پر ہڑبونگ ہے باجے بجانے اور سڑکوں پر بفل نکال کر موٹر سائیکلوں کے شور نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے نوجوانوں کا جذبہ اس قدر جوان ہے کہ وہ ٹکریں مارتے پھر رہے ہیں انھیں اپنے جذبات کے اظہار کی کوئی راہ نظر نہیں آتی ہم اپنے تائیں کچھ نہیں سوچ سکتے تو کم از کم دنیا کے مہذب ملکوں سے ہی کچھ سیکھ لیں وہ کس طرح خوشیاں مناتے ہیں وہ اپنے قومی تہواروں پر قوم کو کس طرح شریک کرتے ہیں ہم ہر سال نت نئے ڈرامے دیکھتے ہیں ہر سال جشن مناتے کئی لوگ جان کی بازی ہار جاتے ہیں موٹرسائیکل پر ریسیں لگاتے اور کرتب دکھاتے کئی نوجوان ٹانگیں تڑوا بیٹھتے ہیں اور کئی زخمی ہو کر ہمیشہ کا روگ لگا لیتے ہیں۔
 ہمارے ہاں ایسی قومی تقریبات کی سرکاری سطح پر تو منصوبہ بندی کی جاتی ہے کہ سرکاری عمارتوں پر پرچم کشائی میں کس کو مدعو کرنا ہے کس کس سرکاری شخصیت ووفود نے مزار قائد اور علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دینی ہے یا چند ایک جگہوں پر کوئی ڈنر یا کوئی چھوٹی موٹی تقریب منعقد کر لی جاتی ہے کہیں عوام کو آزادی کی تقریبات میں شامل کرنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی آذادی کی خوشیوں میں عوام کو شامل کرنے کے لیے کم از کم ایک یا دو دن کے لیے ٹرانسپورٹ کے کرائے کم کردیے جائیں ضلعی سطح پر انتظامیہ تاجروں سے مل کر آزادی سیل لگوائیں ضلعی انتظامیہ آذادی میلے، فوڈ میلے کلچرل میلے منعقد کروا سکتی ہے قیام پاکستان کے موقع کی تصویری نمائش، اور مختلف قسم کے مقابلے کروائے جا سکتے ہیں۔ تقریری مقابلوں سے لے کر کھیلوں، شعر وشاعری کے مقابلے کروائے جا سکتے ہیں ضلعی انتظامیہ چاہیے تو مختلف طبقات کے تعاون سے بہت کچھ کر سکتی ہے لیکن نہ ویژن ہے نہ سوچ ہے اور نہ ہی کچھ کر گزرنے کا حوصلہ ہے لہذا شتر بے مہار قوم کو شور مچانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ 
کیا ہی اچھا ہوتا کہ مینار پاکستان پر کوئی میوزک فیسٹیول منعقد کردیا جاتا جلو پارک میں موٹرسائیکل کی ریس کروا دی جاتی ریس کورس میں پالتو پرندوں کی نمائش لگا دی جاتی کہیں یوم آزادی کے ملبوسات کی نمائش ہوتی کہیں بچوں کے سجنے سنورنے کا مقابلہ کروا دیا جاتا کہیں خواتین میں سجنے سنورنے اور کھانے پکانے کا مقابلہ ہوتا کہیں بولیوں کا مقابلہ ہوتا کہیں روائیتی کھیلیں ہو رہی ہوتیں لیکن ہمیں تو سیاسی کھینچا تانی سے ہی فرصت نہیں نظارے ہم کیا دیکھیں ہم تو چوبیس گھنٹے سیاسی جگاڑوں سے باہر نہیں نکلتے ہم نے قوم کو ایک خوف کے ماحول میں زندہ رکھنا ہے تاکہ ہم کوئی تخلیق نہ کر سکیں ہم نے مہنگائی بجلی کے ہوشربا بلوں بچوں کی فیسوں ٹیکسوں کی بھر مار سے باہر نہیں نکلنے دینا ہم نے تعلیمی اداروں کو بھی کمائی کی فیکٹریاں بنا رکھا ہے بچوں کو تحقیق اور تخلیق کی طرف لیجانے کی بجائے گھوٹہ سسٹم سے نمبرز حاصل کرنے کی دوڑ میں لاکھڑا کیا ہے۔
 بات آزادی منانے کی ہو رہی تھی اور ہم کسی دوسری طرف نکل گئے آج کا دن ہمیں دعوت دیتا ہے کہ بطور قوم ہم سوچیں کہ یہ پیارا پاکستان ہم نے کس لیے حاصل کیا تھا کیا حصول پاکستان کے مقاصد حاصل ہو چکے ہیں یا ہم ان مقاصد کو حاصل کرنا ہی نہیں چاہتے منزل کتنی دور ہے کیسے حاصل کرنی ہے اس کے راستے کی رکاوٹیں کیا ہیں انھیں کیسے دور کیا جا سکتا ہے حقیقت یہ ہے کہ جب یہ ملک نہیں بنا تھا تو ہم ایک قوم تھے ہم ایک قوم کی شناخت رکھتے تھے ۔
آج ہمارے پاس ایک ملک ہے لیکن ہم ایک قوم نہیں رہے ہم زبان مسلک برادریوں علاقوں پر تقسیم ہو چکے ہیں اور تقسیم در تقسیم کی طرف بڑھ رہے ہیں میرے رشتے میں ایک چچا لگتے ہیں میاں رفیق انکی عمر اس وقت 90 سال سے زیادہ ہے جو ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور قیام پاکستان کے عینی شاہد ہیں کبھی کبھار ان سے بات ہوتی ہے تو ان کے منہ سے یہ سن کر عجیب لگتا ہے کہ انگریز کا دور اچھا تھا میں اکثر ان سے کہتا ہوں کہ لگتا ہے آپ کو غلامی پسند تھی جس پر وہ اکثر غصے میں آجاتے ہیں اور کہتے ہیں قائد نے ایسی آزادی کا نہیں سوچا تھا آپ نے تو ایک انگریز سے آزادی حاصل کرکے کئی لوگوں کے پاس ملک رہن رکھ دیا ہے آپ ان کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں آپ اپنے فیصلے کرنے میں خود مختار نہیں آپ توملک سے سود ختم نہیں کر سکے لوگوں کو انصاف نہیں دے سکے لوگوں کو تحفظ نہیں دے سکے انگریز کے دور میں وہ حکومتی مفادات کے لیے ڈنڈی مار لیتے تھے لیکن پبلک کے معاملات میں انصاف کرتے تھے اس دور میں امن وامان آج سے سو درجے بہتر تھا آپ تو آج تک ہجرت کر کے آنے والوں سے انصاف نہ کر سکے جنھوں نے اس ملک کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا اپنی عزتیں قربان کیں عزیزواقربا کی جانوں کی قربانی دی ان کے ساتھ انصاف نہ کر سکے ان کے کلیم بیچ کھائے جعلی آلاٹمنٹوں سے شروع ہونے والا کاروبار آج جعلی ہاوسنگ سوسائٹیوں سے لے کر قبضہ گروپوں تک پھیل چکا ہے آپ کے پاس گاڑیاں، فریج ،اے سی اور آسائشیں تو آگئی ہیں لیکن آپ اخلاقیات کہیں دفن کر بیٹھے ہیں اس ملک میں بسنے والوں کا دین مذہب پیسہ ہو چکا ہے جس ملک کو آپ نے شریعت کے مطابق چلانا تھا اسے آپ اغیار کی خواہشات کے مطابق چلا رہے ہیں ان کی باتیں سن کر اکثر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب قومی مجرم ہیں اور تحریک پاکستان کے شہیدوں اور غازیوں کے خون سے غداری کر رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...