قوم آج اپنی آزادی کے 78ویں سال کا آغاز کر رہی ہے، دو سال ہم نے اپنی آزادی کا ڈائمنڈ جوبلی سال منایا تھا، 77 سال پہلے برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کی عصمت مآب خواتین، نوجوانوں، بزرگوں کی قربانیوں کے بعد ہمیں ہمارا پیارا وطن پاکستان ملا، یہ اسلامی دنیا کی سب سے بڑی بن کر مملکت دنیا کے نقشے پر ابھری، یہ یادگار دن ہمیں آزادی کے سرشار لمحوں سے ہمکنار کرتا ہے، آج کے دن پوری قوم ایک طرف اپنے رب کے حضور آزادی کی نعمت عطا کرنے پر سجدہ شکر بجا لاتی ہے تو دوسری طرف ایک عظیم اور بے مثل خطہ ارضی کی مالک ہونے پر فخر کا اظہار بھی کرتی ہے۔ برصغیر کی سیاسی تاریخ کا مختصر سا جائزہ بتاتا ہے کہ جب 1906ءکو مسلم لیگ قائم ہوئی تو اسی روز پاکستان بھی بن گیا تھا، جس کا اعلان 14 اگست 1947ء کو ہوا۔ 1947ءمیں ہم نے ایک بے سرو سامانی کے عالم میں آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہو کر اپنا سفر شروع کیا تھا، آج بفضل ِ تعالیٰ ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جس پر کوئی باوقار قوم فخر کر سکتی ہے۔ اپنے اس فخر کو ہم متحد رہ کر ہی قائم رکھ سکتے ہیں۔ بلاشبہ ہم ایک اسلامی مملکت اور ایٹمی طاقت ہیں اور ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی با صلاحیت قوم کی حیثیت سے دنیا میں ہماری پہچان ہے۔ پاکستان دنیا کے جس خطہ میں موجود ہے یہ بھی قدرت کا ایک انعام ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی اور سٹرٹیجک پوزیشن کی وجہ سے دنیا ہمیں کبھی بھی نظر انداز نہیں کر سکتی، ہماری معیشت، ثقافت، ورثہ اور تاریخی آثار ہمیشہ سے دنیا کی توجہ حاصل کرتے رہے ہیں۔ یہ77 سال کا عرصہ ہم نے ایسے نہیں گزارا کہ جسے رائیگانی کا سفر کہا جا سکے، آج ہم ایک مضبوط فوج کے مالک ہیں اور پر عزم قوم ہمارا اثاثہ ہے، یہ قوم اسلام کے نظام حیات کو اپنی نجات ذریعہ سمجھتی ہے اور دنیا میں اپنی سلامتی کی ضامن اور بہترین محافظ بھی ہے۔ دنیا میں امن کے لیے ہمارے کردار کو تسلیم کیا جاتا ہے، اقوام متحدہ کے امن دستوں میں پاک فوج، پولیس کے کردار کی پوری دنیا معترف ہے۔ اقوام عالم میں ہم نے ہمیشہ ایک مثبت اور جان دار موقف اپنا کر اپنے وجود کو منوایا ہے، ہم اپنے پارلیمانی جمہوری سیاسی نظام حکومت کے لیے ایک متفقہ آئین رکھتے ہیں۔ آئین کی اصل روح قرآن اور سنت کا راستہ ہے، اور اس کی اساس پر ہی ہم ایک مضبوط جمہوری و پارلیمانی نظام کے وارث ہیں، دفاع کے شعبہ میں ہماری قوم اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ چونڈہ کا محاذ ہو یا برکی یا کارگل، پاکستان کے جری جوانوں نے تاریخ رقم کی ہے۔ ہمارے ملک کا مزدور، دہقان اور محنت کش کسان سب اس ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ہماری حکومت اور ملک کی سیاسی لیڈر شپ کی یہ سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ ہم مل کر ایک ایسی حکمت عملی بنائیں کہ ہمارے ملک کا تعلیم یافتہ نوجوان اپنے ملک میں رہ بہترین روز گار حاصل کرے اور اپنے ملک کی خدمت کرے، اور وہ یہاں کے ماحول سے مایوس نہ ہو، اگر پارلیمنٹ اور ملک کی سیاسی لیڈر شپ یہ کام ایک قومی فریضہ سمجھ کر انجام دے تو پاکستان دنیا کا بہترین معاشی حب بن سکتا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں نجی اور پبلک سیکٹر دونوں ہی اعلیٰ تعلیم کے مواقع پیش کر رہے ہیں اور ہماری نئی نسل جدید علوم سے فیض یاب ہو کر نہ صرف اندرون ملک بلکہ دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں ہماری ترقی بڑے ممالک جیسی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنھوں نے اس شعبے میں تیز رفتار ترقی کی ہے پاکستان دنیا کے ان ممالک کی صف ِ اول میں کھڑا ہے، داخلی استحکام کے لیے پوری قوم اور ریاستی ادارے سب یکسو ہیں اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں سب ایک پیج پر ہیں اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے میں ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر اپنے حصے کا فرض ادا کیا، آج ہمارے بڑے شہر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے شہروں کا مقابلہ کر رہے ہیں، فلک بوس عمارتیں، کشادہ سڑکیں اور زندگی کی ہر سہولت سے مزین رہائشی آبادیاں غرض وہ کون سی چیز ہے جو ہمارے پاکستان میں دستیاب نہیں اور دنیا میں موجود ہے، سو ہم اپنے گزرے سفر پر فخر کرسکتے ہیں تاہم قوموں کی زندگی میں خود احتسابی کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے، اسی کے نتیجے میں ہم بہتر سے بہترین کی طرف جا سکتے ہیں، ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم نے قائداعظم کے فرمان اتحاد، ایمان اور یقین محکم کو فراموش کیا ہے،خاص طور پر اتحاد کے معاملے میں، ہماری سوچ انتشار کا شکار رہی ہے، سیاسی سطح پر ہم نے قومی مفاد کو پس پشت ڈال کر ذاتی و گروہی جھگڑوں کو فروغ دیا، کوئی قوم منتشر ہو کر ترقی نہیں کر سکتی، اتحاد ہی ترقی کا واحد راستہ ہے، اسی لیے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اس پر بہت زور دیا تھا، ہمارے ہاں سیاست نے قوم کو تقسیم کیا ہے جوڑا نہیں ہے۔ سیاسی اختلافات ہر معاشرے میں ہوتے ہیں مگر وہ ایشوز کی بنیاد پر جنم لیتے ہیں،سیاسی تقسیم نفرتیں پیدا نہیں کرتی بلکہ اسے صحت مند مقابلے کی فضا کا باعث بننا چاہیے، ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ قومی مسائل پر بھی ہمارے سیاست دان مل کر نہیں بیٹھتے، سیاست دانوں کی تفریق کے باعث عوام بھی تقسیم ہو جاتے ہیں،اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے، جو اتنی گہری ہے کہ اسے پاٹنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ معیشت اِس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ اپوزیشن اور حکومت ایک جگہ مل بیٹھیں اور میثاق معیشت کی بنیاد رکھیں مگر انتشار پیدا کر کے بے یقینی اور بے چینی کو جنم دیا جا رہا ہے جو معیشت کے لیے زہر قاتل ہے۔ ہم حقیقی آزادی تب پائیں گے جب ہم اپنی اس آزادی کی نعمت کو ایک ملی، قومی اور اسلامی ذمہ داری تصور کریں گے اور باہم مل کر ملک کو اتحاد و اتفاق سے آگے لے جانے کی سعی کریں گے۔ فوج ہمارا قومی ادارہ ہے تمام سیاسی جماعتیں اپنے دائرے میں کام کریں اور عوام کی جانب دیکھیں فوج ایک قومی ادارے کے طور پر ہم سب سے اعتماد کا متقاضی ہے اِس وقت ہمیں ایک ایسے سیاسی اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے جو بنیادی قومی مسائل پر ہماری رہنمائی کرسکے، ہماری سیاسی تاریخ ہنگامہ آرائی، تحریکوں اور انتشار سے بھری پڑی ہے، یہی وہ شعبہ ہے جس میں پاکستان استحکام سے محروم رہا ہے، آج کے دن یہ عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ استحکام پاکستان کے لیے سیاست سے بالاتر ہو کر کام کریں۔ ہمیں پاکستان کو اپنی امیدوں کا محور بنا کر اپنے کردار و عمل کا ازسر نو تعین کرنا چاہیے۔ یہ آج کے دن کا اصل تقاضا ہے۔وقت آ گیا ہے ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں، اپنے انداز و اطوار درست کریں، کمر کس لیں اور خودی میں اپنا نام پیدا کریں۔ ملک کو ایک سمت میں ڈال دیا گیا ہے جس سے انحراف کی اجازت کسی کو نہیں دی جانی چاہیے۔ نو مئی کے واقعات نے ملکی سیاست کی تصویر کافی حد تک بدل دی۔ منصفانہ نظام عدل ہمیں مسائل سے باہر نکال سکتا ہے، اور معاشی بحران سے بھی نجات مل سکتی ہے۔ اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ملک میں مہنگائی کو لگام ڈالنے کی ضرورت ہے عام آدمی کے لیے زندگی مشکل ہوتی جارہی ہے، ڈالر بے لگام ہو گیا اور بے روزگاری نے ملک میں ڈیرے ڈال لیے ہیں چین اور سعودی عرب سمیت بعض دوست ممالک کے تعاون سے پاکستان اپنی تمام تر بیرونی ادائیگیاں کرنے میں تو کامیاب ہو گیا لیکن یہ عارضی حل ہے آئی ایم ایف کے سرٹیفیکیٹ کے بعد سے عالمی بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، چین، سعودیہ اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور دیگر دوست ملک ہماری معاشی مشکلات دور میں برابر ہماری مدد کر رہے ہیں، اب ہماری پارلیمنٹ کو چاہیے کہ ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ ہم بیرونی محاذ پر کسی خطرات میں گھر نہ جائیں معاشی بحران پر کسی حد تک قابو پائے جانے کے بعد اِس تاخیر کی کوئی منطق باقی نہیں بچتی۔ بہتر یہی ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں جگہ دستور کے مطابق حکومت اور پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اپنا کردار ادا کرے تاکہ عوام جس پر بھی اعتماد جمہوریت پر بڑھ سکے۔ ذرا سوچیے تو پاکستان کبھی کیا تھا اور اسے ہمارے حکمرانوں نے کیا بنادیا ہے۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ انانوں اور قوموں کی زندگی میں اصل چیز نظریہ ہوتا ہے۔ یہ نظریہ تھا جس نے چین میں انقلاب برپا کیا اور آج چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے، یہ نظریہ تھا جس نے پاکستان تخلیق کیا۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکسان کے ہر مسئلے کا حل ملک کے نظریے کی طرف لوٹنے میں ہے۔ نظریہ ہی ہمیں حقیقی معنوں میں آزاد ملک اور آزاد قوم بنا سکتا ہے۔ نظریہ ہی پوری قوم کو تخلیقی قوم میں ڈھال سکتا ہے، صرف نظریے کی پاسداری سے ہمیں اہل اور مخلص قیادت میسر آسکتی ہے۔