نوجوان قائد اعظم کو رول ماڈل بنائیں

Aug 14, 2024

قیوم نظامی

 آج یوم آزادی ہے پاکستان کے عوام کے لیے خوشی کا دن ہے- پاکستان مختلف نوعیت کے مسائل کا شکار ہے اس کے باوجود اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستان آزاد ہے- پاکستان کے نوجوان اگر بانی پاکستان قائد اعظم کو اپنا رول ماڈل بنالیں تو پاکستان چند سالوں کے اندر ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے - ہماری ناکامی کا سبب یہ ہے کہ ہم تحریک پاکستان کے مقاصد کو فراموش کر چکے ہیں نوجوان نسل کو قائد اعظم کی شخصیت و کردار سیاست اور نظریہ پاکستان کا ادراک ہی نہیں ہے- 1946کے انتخابات قیام پاکستان کے لیے بڑے اہم تھے- قائداعظم انتخابی مہم کے دوران سندھ پہنچے تو مسلم لیگی لیڈر جی آ لانا نے قائداعظم سے ووٹ خریدنے کے لئے پارٹی فنڈ کا مطالبہ کیا- قائداعظم نے فرمایا” میں ووٹ خریدنے کے لئے ایک روپیہ بھی نہیں دوں گا اور پاکستان کی آزادی کی جنگ ہار جانا قبول کرلوں گا“ افسوس آج پاکستان کی سیاست تجارت اور سرمایہ کاری بن چکی ہے - ایک پبلک ریلی پر پانچ سات کروڑ روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں- صوبائی اسمبلی کا امیدوار 25 کروڑ روپے اور قومی اسمبلی کا امیدوار 50 کروڑ روپے انتخابی مہم پر خرچ کر دیتا ہے اور اقتدامیں آ کر کرپشن کرکے اربوں روپے کما لیے جاتے ہیں - جب پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہوگیا تو متحدہ ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ماو¿نٹ بیٹن نے کانگریس کے لیڈروں سے مشاورت کے بعد قائداعظم کو اس شرط پر متحدہ ہندوستان کا پہلا وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی کہ وہ پاکستان کا مطالبہ مو¿خر کر دیں- قائد اعظم نے جواب دیا کہ ”میں اپنی قوم کا سودا کیسے کر سکتا ہوں“ - پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی لیڈر وزیراعظم بننے کے لیے قوم ملک سلطنت سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں- آج کل وزیراعظم کی کرسی کے لئے گھمسان کی جنگ جاری ہے-
ہندوستان کی آزادی کے بعد کانگریس کے لیڈر نہرو پارلیمانی نظام کے مطابق وزیر اعظم بن گئے - قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور لیاقت علی خان پہلے وزیراعظم بن گئے- کابینہ نے اپنے اختیارات قائداعظم کے سپرد کردیے اور انہوں نے ریاست کو ایک سال تک صدارتی نظام کے طور پر چلایا- قائداعظم نے اپنے ہاتھ سے تحریر میں لکھا کہ پاکستان کے لیے صدارتی نظام زیادہ موزوں ہے- قائداعظم کی یہ تحریر سرکاری ریکارڈ اور مستند کتب میں موجود ہے- ( قائداعظم بحیثیت گورنر جنرل صفحہ نمبر 195 علم و عرفان پبلشرز اردو بازار لاہور ) پاکستان میں افسوس ناک شرمناک اذیت ناک تجربات کے باوجود پارلیمانی نظام چلایا جا رہا ہے- اس نظام کا تماشا آج بھی عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں- اشرافیہ کا یہ پارلیمانی نظام مافیاز کے مفادات کا محافظ بن چکا ہے- عوام اس نظام سے عاجز آچکے ہیں- اگر آئینی ریفرنڈم کرایا جائے تو 98 فیصد عوام اس سنگدلانہ غیرمنصفانہ پارلیمانی نظام کے خلاف ووٹ دیں گے-
قیام پاکستان کے چھ ماہ بعد قومی خزانہ خالی ہو گیا سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے بھی پیسے نہیں تھے - کلونیل ذہنیت کے حامل سرکاری افسروں نے قائد اعظم کو مشورہ دیا کہ عوام کو نہ بتایا جائے کہ خزانہ خالی ہو گیا ہے - قائد اعظم نے فرمایا عوام پاکستان کے مالک ہیں مالکوں سے سچ کو نہ چھپاو¿- قائد اعظم نے عوام کو اعتماد میں لیا اور ”پاکستان فنڈ“ قائم کیا جس میں لوگوں نے کروڑوں روپے جمع کرادیئے اور اس طرح مالی بحران ٹل گیا - مسلمان ہندو سکھ اور عیسائی مورخ محقق اور مصنف سب متفق ہیں کہ قائد اعظم نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا امانت میں خیانت نہیں کی اور نہ ہی کبھی وعدہ خلافی کی- قائد اعظم نے اپنی زندگی میں کبھی غیر پارلیمانی غیر مہزب الفاظ استعمال نہیں کئے جبکہ پاکستان میں صبح شام جھوٹ بولا جاتا ہے الزام تراشی کی سیاست کی جا رہی ہے -جھوٹ کا شور اس قدر زیادہ ہے کہ سچ کہیں سنائی ہی نہیں دیتا - اپنے لہجے کے منفرد اور نامور شاعر ظفر اقبال کہتے ہیں-
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرآ
دمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے
قائداعظم نے اپنے تاریخی خطاب 11 آگست 1947 میں کرپشن اور رشوت ستانی کو سماج کے لیے کینسر قرار دیا اور ان جرائم کے خاتمے کے لیے عبرتناک سزائیں دینے کی نصیحت کی- افسوس آج پاکستان میں رشوت اور کرپشن محترم معزز اور باوقار بن چکی ہے-جو جتنا بڑا کرپٹ ہوتا ہے وہ اتنا ہی بڑا ریاستی منصب سنبھال لیتا ہے- اسی خطاب میں قائد اعظم نے خبردار کیا تھا کہ سیاست اور ریاست کو مذہب سے علیحدہ رکھا جائے- انھوں نے سیاسی دباو¿ کے باوجود مولانا شبیر احمد عثمانی کو اپنی وفاقی کابینہ میں مزہبی مشیر کی حیثیت سے شامل نہ کیا - جنرل ضیاءالحق نے اپنے ذاتی اقتدار اور سیاسی عزائم کے لیے مذہب کا بے دریغ استعمال کر کے قائد اعظم کے پاکستان کو برباد کر کے رکھ دیا-مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ خون آلود ہو چکی ہے- آج بھی کوئی سیاسی جلسہ ایسا نہیں ہوتا جس میں "مذہبی ٹچ " نہ دیا جاتا ہو - قائد اعظم مزہب کو سیاسی عزائم کے لیے استعمال کرنے کے خلاف تھے البتہ پاکستان کا آئین اور قوانین اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق تشکیل دینے کے حق میں تھے- قائداعظم نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے لئے صرف آٹھ ارکان پر مشتمل وفاقی کابینہ بنائی وزیروں کا انتخاب میرٹ اور صرف میرٹ پر کیا گیا اور کوئی اقربا پروری نہ کی گئی- آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان مقروض اور غریب ملک ہے مگر وفاقی کابینہ ایک سو افراد تک پہنچ جاتی ہے -
قائداعظم آئین اور قانون کی حکمرانی پر صدق دل و خلوص نیت سے یقین رکھتے تھے - انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی آئین کے آرٹیکل اور قانون کے ضابطے کی خلاف ورزی نہیں کی-گورنر جنرل بننے کے بعد وہ کراچی لیاری کی جانب جا رہے تھے کہ راستے میں ریلوے کا پھاٹک بند تھا - ابھی گاڑی آنے میں چار منٹ باقی تھے- قائد اعظم کے اے ڈی سی جنرل گل حسن نے ریلوے کا پھاٹک کھلوا دیا مگر قائد اعظم نے پھاٹک کراس کرنے سے انکار کر دیا وہ سڑک پر رکے رہے اور گاڑی گزرنے کا انتظار کرتے رہے اور قانون پر عمل کیا-آج پاکستان میں آئین اور قانون مذاق بن کر رہ گیا ہے پاکستان میں طاقت کا قانون تو ہے مگر قانون کی طاقت کہیں نظر نہیں آتی- قائد اعظم قومی خزانے کے استعمال کے بارے میں انتہائی محتاط تھے- انہوں نے گورنر جنرل ہاو¿س کے اخراجات بہت کم کر دیے تھے- یہاں تک کہ وہ سونے سے پہلے گورنر جنرل ہاو¿س کی فالتو بتیاں خود بجھا دیتے تھے تاکہ قومی خزانے پر فالتو اخراجات کا بوجھ نہ پڑے- آج پاکستان معاشی دیوالیہ پن کا شکار ہے اس تشویشناک صورتحال کے باوجود پاکستان کی حکمران اشرافیہ اپنی مراعات وی آئی پی کلچر اور پروٹوکول پر قومی خزانے کے اربوں روپے خرچ کر رہی ہے -
قائد اعظم نے اپنی شب و روز محنت کی وجہ سے جو جائیدادیں اور اثاثے بنائے تھے انہوں نے اپنی وصیت کے مطابق رفاہی اور تعلیمی اداروں کے لیے وقف کردیئے- جبکہ آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد قومی خزانے کی لوٹ مار کرکے اپنے اثاثے نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ پاکستان کے باہر بھی بنا رہے ہیں-قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کو کلونیل ذہنیت کے بارے میں بڑی تشویش تھی لہذا انہوں نے فوجی اور سول افسروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان آزاد ہو چکا ہے لہذا اب آپ حاکم نہیں بلکہ عوام کے خادم ہیں-افسوس چھہتر سال گزر جانے کے باوجود قائداعظم کی اس ہدایت پر عمل نہیں کیا جا رہا اور وہی نظام چلایا جا رہا ہے جو انگریزوں نے متحدہ ہندوستان کے عوام کو محکوم رکھنے غلام بنانے اور ان کے وسائل لوٹنے کے لیے نافذ کیا تھا-
 آج کا پاکستان ہرگز قائداعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان نہیں ہے اور جب تک ہم موجودہ پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان نہیں بنائیں گے اور انگریزوں کا نظام تبدیل نہیں کریں گے ہم کبھی سیاسی اور معاشی استحکام حاصل نہیں کر سکیں گے- قائد اعظم چاہتے تھے کہ پاکستان میں رہنے والے تمام شہریوں کو بلا لحاظ مزہب نسل زبان رنگ اور جنس مساوی سیاسی جمہوری سماجی اور معاشی حقوق حاصل ہوں- وہ پاکستان کو اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق ایک جدید جمہوری فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے- پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستان کے نوجوان قائد اعظم کو اپنا رول ماڈل بنا لیں تو وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ترقی کر سکتے ہیں-

مزیدخبریں