امبر جبین
نو آزاد مملکت ِپاکستان میں پہلی بار حکومت بنانے کا اعزاز مسلم لیگ ہی کے حصے میں آیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو پاکستان کا پہلا گورنر جنرل جبکہ لیاقت علی خان کو پہلا وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔یہ مسلسل جدو جہد کی تھکان تھی یا آزادی کا اطمینان جس نے اس جماعت میں اختلاف رائے کی آبیاری کی اور 1950 میں مسلم لیگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔ برصغیر کے مسلمانوں کی یہ نوزائیدہ ریاست کسی سیاسی عدم استحکام کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی اس وقت سرحدوں پر امن و امان اولین ترجیح تھی جس کیلئے لیے کمانڈ فوج کے ہاتھ میں دی گئی۔ جسے مسلم لیگ کی حمایت حاصل تھی۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ 1958 کے مارشل لاء کے دوران مسلم لیگ کو کنوینشن مسلم لیگ کا نام دے دیا گیا۔1977 میں بھٹو حکومت کے خاتمے اور جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کے دوران بھی مسلم لیگ نے ایک نئی شکل اختیار کی اورایک بار پھر اپنی سیاسی شناخت بنائی جس کی قیادت کا سہر امستقبل کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے سر تھا۔ 1988ء میں جنرل ضیا الحق کی وفات کے بعدسے وہی اس کے قائد رہے 1993ء کے بعدسے اس جماعت نے قائد کے نام کی مناسبت سے مسلم لیگ ن کے نام سے شہرت پائی ۔ میاں نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں پاکستان کوتعبیر سے بڑھ کر اسے تعمیر کی راہ پر گامزن کیا۔ ان کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) نے 1990، 1997، اور 2013 میں تین بار انتخابات جیت کر حکومت بنائی اور ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو یقینی بنایا۔اداروں کی اصلاح اور نجکاری کی پالیسی اختیار کی۔موٹر وے جیسی تجارتی اہمیت کی حامل شاہرات تعمیر کیں۔ متعدد رابطہ سڑکیں بحال کیں۔ 1998 ء میں بھارت کے جوہری دھماکوں کے جواب میں چاغی میں کامیاب جوہری تجربات کر کے نا صرف ملکی دفاع کو مضبوط بنایا بلکہ پاکستان کو دنیا کی بڑی جوہری طاقتوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔ توانائی کے فقدان پر کنٹرول کے لیے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور قائد اعظم سولر پاور جیسے پروجیکٹس لگائے۔ دہشت گردی کو کنٹرول کیا اور سب سے بڑھ کر سی پیک جیسے منصوبے کی راہ ہموار کی ۔ مسلم لیگ( ن) کی قیادت کے لیے پاکستان کی تعمیر کا یہ سفر آسان ثابت نہیں ہوا۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا ء میں نواز شریف کی حکومت ختم کر دی گئی اور وہ جلاوطن ہو گئے۔2007 میں نواز شریف وطن واپس آئے اور 2013 میں دوبارہ جمہوری وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی تمام تر توجہ سی پیک ، توانائی کے بحران کے حل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مرکوز تھی۔ تاہم، 2017 میں پاناما لیکس کے بعد ایک بار پھر منتخب وزیر اعظم کوکٹہرے میں بلا کر نا اہل قرار دے دیا گیا۔ جبکہ بھائی کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے شہباز شریف نے مسلم لیگ ن کی قیادت سنبھالی۔وہ مسلسل 10سال تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے بہترین منتظم کا اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں۔ پنجاب میں ان کی کارکردگی ہی ان کی پہچان ہے۔ حتیٰ کہ بعد میںآنے والے وزیر اعلیٰ ان کا حوالہ دئیے بغیر عوام کو اپنا تعارف کروانے میں ناکام رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج نا صرف مسلم لیگ ن کے اراکین ان کی قیادت کو خوش دلی سے قبول کرتے ہیں بلکہ2022 میں پاکستان تحریک انصاف کے خلاف بننے والے سیاسی پارٹیوں کے الائنس PDM نے بھی شہباز شریف کو اپنا نمائندہ بنایا اوراب فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد بھی مسلم لیگ ہی ملک میں دیگر جماعتوں کے تعاون سے منتخب وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں منصب اقتدارپر فائزہے ۔
’’پاکستان اسی روز معرض وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا شخص مسلمان ہوا‘‘
Aug 14, 2024