پروفیسرشریف چودھری
pr.shareefajk@gmail,com
اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک جداگانہ نظریاتی تشخص کی حامل مملکت خداداد ہے ، قیام پاکستان بر صغیر جنوبی ایشیا میں مسلمان کی آمد ،عروج اور زوال کا تسلسل اور اس کا منطقی نتیجہ ہے۔بقول بابائے قوم محمد علی جناح پاکستان اسی روز معرض وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا شخص مسلمان ہواتھا۔پورے بر صغیر میں برطانوی راج جب 1857 تک قائم ہو گیا مسلمانوں کے جداگانہ تشخص اور مسلم معاشرہ کی نشاۃ ثانیہ کے لیے شاہ ولی اللہ کی اصلاحی تحریک ،سید احمد شہید کی تحریک مجاہدین، تیتو میر کی کسان تحریک، حاجی شریعت اللہ کی فرائضی تحریک ،دیوبند تحریک اور سر سید احمد خان کی تحریک علی گڑھ مسلم اقتدار کی بحالی کے لیے سر گرم عمل رہیں۔ دوسری جانب سات سمندر پار سے آنے والی انگریز قوم نے تاجر کے روپ میں مسلمانوں سے اقتدار، اختیار اور حق حکمرانی چھین لیا۔مسلمان مکار ہندو اکثریت اور عیار انگریز حکومت کی دوہری غلامی کا شکار ہو گئے۔مسلمان بحیثیت قوم زوال پذیر تھے آسمان سے انے والی ہر بلا کا شکار مسلمان تھے۔ان حالات میں اللہ تعالی نے مسلمانوں میں سر سید احمد خان جیسا بطل جلیل پیدا کیا جوہندوستان کے مسلمانوں کی ڈگمگاتی کشتی کا سہارابنے۔ آپ کی تحریک علی گڑھ کے نتیجے میں 1906 میں مسلم لیگ کا قیام ہوا ،1909 میں پہلی بارجداگانہ حق انتخاب ،1916 میں میثاق لکھنو کے نتیجے میں کانگرس اور مسلم لیگ کا وقتی اتحاد ، 1929 میں قائد اعظم کے 14 نکات ،1930 میں مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کے خطبہ الہ آبادنے پاکستان کے خد وخال واضح کر دیئے ۔1937 میں کانگریسی وزارتوں کے قیام کے تجربے کے بعد لاہور میں مسلم لیگ کی قرارداد پاکستان کا ہو جانا اہم موڑ ثابت ہوا۔جس کی منظوری کے بعد بر صغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں ان کے فرمان کے مطابق اتحاد ،یقین اور تنظیم کی قوتوں سے لیس ہو کر جدو جہد پاکستان تیز تر کر دی اور صرف سات سال کے مختصر عرصہ میں 14 اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی مملکت کی حیثیت سے منصئہ شہود پر جلوہ گر ہوگیا۔
14 اگست ہمارے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا یوم آزادی ہے۔آج پوری پاکستانی قوم اپنی آزادی کا 77واں سال اور 78واں یوم آزادی جوش جذبے اور ایک نئے ولولے کے ساتھ منا رہی ہے۔تحریک پاکستان کے دوران شہداء کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔نظریاتی بنیادوں پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام انسانی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔اس روز لارڈ ماؤنٹ بیٹن واسرائے ہند نے دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائد کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شہنشاہ اکبر کی طرح پاکستان کی اقلیتوں سے حسن سلوک اور رواداری کا سبق دینے کی کوشش کی تو قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ شہنشاہ اکبر کا حسن سلوک کل کی بات ہے ہمیں یہ سبق ہمارے پیغمبر حضرت محمد ؐ نے 1400 سال پہلے دے رکھا ہے۔دو قومی نظریہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اساس ہے۔پاکستان ایک جمہوری اور قانونی جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہوا۔اس کے قیام کے مقاصد میں مسلمانوں اور اسلامی معاشرہ کی نشاط ثانیہ ،محکوم اور مقہور عوام و اقوام کی مدد کرنا اور عالمی امن کے فروغ میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا شامل ہیں۔ پاکستان کے قیام کا مقصد محض الگ حکومت بنانا نہیں تھا بلکہ ایک ایسی ریاست قائم کرنا تھا جو اپنے ذاتی مفاد کو عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے قربان کر دے اور انہیں اس قابل بنائے کہ وہ اس دور میں اپنی اسلامی تشخص کو نمایاں کر کے دنیا والوں کو بتا سکیں کہ اسلام صرف عقائد وعبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک جامع نظام زندگی ہے جو ہر دور میں ہر ملک کے حالات کے مناسب حال ہے اور بنی نوع انسان کو ترقی کی ان راہوں پر چلنے کے قابل بناتا ہے جو انسان کے شایان شان ہیں …قائد اعظم نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن کے طلبہ سے خطاب میں فرمایا تھا،میں نے قرآن مجید اور قوانین اسلام کے مطالعہ کی اپنے طور کوشش کی ہے اس عظیم کتاب میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں زندگی کا روحانی پہلو ہو یا معاشرتی ہو یا سیاسی ہو یا معاشی غرض کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔آج مملکت کی آزادی کو 77سال گزر چکے ہیں آج بھی وطن عزیز شدید نوعیت کی معاشی مشکلات اور اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے جس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔اس معاشی اور طبقاتی فساد نے سماجی فاصلے گہرے کر دیے ہیںزور زبردستی نے ریاستی انتظامی توازن کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔پاکستان خدا کے فضل و کرم سے ایک توانا قوم اور موزوں وسائل معیشت کا ملک ہے۔ اس کے نظریاتی تشخص کے ساتھ نئی نسل کو تحریک پاکستان اور اس کے پس منظر سے آگاہ رکھنا ہم سب کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے!!