شیح حسینہ واجد کے زوال سے سبق

پاکستان جیسے ملکوں کی بدنصیبی ہے کہ اس کے حکمران اقتدار میں ہوں تو ’’منتخب‘‘ ہونے کے باوجود جمہوری چلن اختیار کرنے کے بجائے خود کو بادشاہوں کی طرح تاحیات تخت پر براجمان رکھنے کے جنون میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ تھا۔ اپنے سیاسی مخالفین کو اس نے چن چن کر دیوار سے لگایا۔ 1971میں ہوئے واقعات کو یاد رکھتے ہوئے مذہبی بنیادوں پر ابھری جماعت اسلامی کے رہ نمائوں کو غدار ثابت کرنے کے بعد پھانسیوں پر لٹکا دیا۔ اس ضمن میں 90سال سے زائد عمر کے پروفیسر غلام اعظم کی بھی جاں بخشی نہ ہوئی۔ 
اپوزیشن جماعتوں اور رہ نمائوں کو دیوار سے لگانے کے بعد حسینہ نے اپنے ملک کے میڈیا کا گلاگھونٹنا شروع کردیا۔ بتدریج روایتی میڈیا کے تمام پلیٹ فارم ریاست کی فراہم کردہ کہانیاں ہی دہرانے لگے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں میں بیٹھے ’’محافظین‘‘ اس کی فسطائیت کو منافقانہ ڈھٹائی سے نظرانداز کرتے رہے۔ ’’معاشی ترقی اور استحکام‘‘ کے نام پر بلکہ اسے برداشت کرنے کے مشورے دینے لگے۔ حسینہ واجد کے سیاسی مخالفین اور فکری ناقدین پر جو عذاب مسلط تھے ان سے توجہ ہٹانے کے لئے ’’بنگلہ دیش ماڈل‘‘ کی بات چلائی گئی۔ اس ماڈل کی کلیدی خوبی آبادی کی بڑھوتی پر کنٹرول کے بعد خواتین کو روزگار کے میدان میں متحرک کرنا تھا۔
اپنے قیام سے تقریباََ دس سال بعد تک بنگلہ دیش اگرچہ حقارت سے ’’بھکاری کا کاسہ‘‘ پکارا جاتاتھا۔رواں صدی کے آغاز سے مگر اس کی شرح نمو میں مسلسل اضافے کی داستانیں گونجنے لگیں۔ تاثر یہ پھیلا کہ بنگلہ دیش چند ہی برسوں میں جنوبی ایشیاء کا سب سے ترقی پذیر ملک بن جائے گا۔ مقابلے کی دوڑ میں بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا۔ معاشی امور پر عوام کی بھلائی کے خیال سے نگاہ رکھنے والے ماہرین معیشت اگرچہ مصر رہے کہ ’’بنگلہ دیش ماڈل‘‘ پانی کا بلبلہ ہے۔ اسے نہایت ہوشیاری سے منافع خور سیٹھوں کے ایک گروہ نے امریکہ اور یورپ کا ’’درزی خانہ‘‘ بنادیا ہے۔ بنیادی طورپر خواتین کے خون پسینے سے تیار ہوئے کپڑوں کی اُجرت ناقابل یقین حد تک سستی تھی۔ ان کی محنت سے تیار ہوئے لباس مگر امریکہ اور یورپ کے برانڈڈسٹورز میں مہنگے داموں بکتے۔ بالآخر نوبت بہ ایں جارسید کہ بنگلہ دیش کی سالانہ آمدنی کا 80فی صد (جی ہاں 80فی صد) حصہ فقط درزی خانوں میں تیار ہوئے کپڑوں کی بیرون ملک برآمد سے میسرہونا شروع ہوگیا۔
درزی خانے کی لگائی رونق سے مدہوش ہوئے حکمرانوں نے اجارہ دار سیٹھوں اور ان کے بھاری بھر کم تنخواہیں لینے والے معاونین سے ان کی آمدنی کے مطابق ٹیکس جمع کرنے کی کوشش ہی نہ کی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد دریں اثناء مسلسل بڑھتی رہی۔ نہایت محنت اور لگن سے جدید دور میں درکار تعلیم کے حصول کے بعد یہ نوجوان درزی خانوں کے ملازم ہونہیں سکتے تھے۔ انہیں کھپانے کو دیگر دھندے متعارف کروانے پر مگر توجہ ہی نہ دی گئی۔ ان نوجوانوں کے پاس معقول ماہوار آمدنی اور معاشرے میں عزت کمانے کا واحد ذریعہ سرکاری نوکری کا حصول رہ گیا تھا۔ سر کاری نوکریوں میں لیکن 30فی صد کوٹا ان ’’مجاہدین آزادی‘‘ کی اولادوں کے لئے وقف تھا جنہوں نے 1971میں بنگلہ دیش کو پاکستان سے جدا کرنے کی تحریک میں نمایاں حصہ لیا تھا۔ روشن امکانات سے قطعاََ محروم ہونے کے باوجود ریاستی جبر سے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے تمام ذرائع سے محروم ہوئے نوجوان بالآخر سڑکوں پر آگئے۔ انہیں انٹرنیٹ کے تمام پلیٹ فارم بند کرکے اندھیرے میں رکھنے کی کوشش ہوئی۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ امریکہ اور یورپ کے کئی طاقت ور ملک بھی اپنے ہاں انتشار وخلفشار کا واحد ذمہ دار سوشل میڈیا کو ٹھہراتے ہیں۔ اس کی بندش سے خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
عمرتمام روایتی میڈیا کی نذر کردینے کی وجہ سے میں سوشل میڈیا کی بدولت ابھرے خلفشار کو بخوبی سمجھ سکتا ہوں۔ کئی بار اس کالم میں ایسی کتابوں کا حوالہ دیا ہے جنہوں نے گہری تحقیق کے ذریعے سمجھایا ہے کہ سوشل میڈیا نے سری لنکا اور برما جیسے ملکوں میں کس انداز میں خون ریز نسلی فسادات بھڑکائے۔ سوشل میڈیا کے منفی اثرات کو بخوبی جانتے ہوئے بھی تاہم اصرار کو مجبور ہوں کہ محض اس کی بدولت عوام میں مقبول حکومتوں یا ریاست کے طاقتور اداروں کو کمزور نہیں بنایاجاسکتا۔ سوشل میڈیا نے مصر میں نام نہاد ’’عرب بہار‘‘ کا آغاز کیا تھا۔ انجام کیا ہوا؟ مصرمیں اب جمہوری لباس پہنے ایک فوجی آمردورِ حاضر کا فرعون بن چکا ہے۔ تیونس آخری ملک رہ گیا تھا جہاں جمہوری نظام سے امید چند سال قبل تک برقرار رہی۔ اب وہاں بھی ایک ’’منتخب‘‘ صدر سے مطلق العنان آمروں والا ’’ڈنڈا‘‘ چلانے کی فرمائش ہورہی ہے۔
افواہیں یا بے بنیاد ’’فیک نیوز‘‘ سوشل میڈیا کی اثرپذیری کے ذریعے اپنے طورپر کسی ملک میں خلفشار پھیلانہیں سکتیں۔ عوام اگر ریاستی جبر کا مقابلہ کرنے کے لئے گھروں سے نکلنے کو مجبور ہوجاتے ہیں تو وجوہات اس کی ٹھوس اور روزمرہّ زندگی سے جڑی ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا امریکہ میں ایجاد ہوا تھا۔ ’’ذہن سازی‘‘ کو اس ملک میں بطور علم یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ وہاں ہالی ووڈ بھی ہے جو دنیا بھر میں دیکھی جانے والی کامیاب ترین فلمیں اور نیٹ فلیکس وغیرہ کے لئے ڈرامے بناتا ہے۔ ’’ذہن سازی‘‘ کے ہنر پر تمام تر گرفت کے باوجود امریکہ افغانستان میں دو دہائیوں تک بھاری بھر کم فوج کے ساتھ قابض رہنے کے باوجود وہاں آباد لوگوں کی ’’ذہن سازی‘‘ میں ناکام رہا۔ بالآخر ذلت آمیز انداز میں وہاں سے واپسی کو مجبور ہوا۔
بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کے زوال سے بنیادی سبق یہ سیکھنا ہوگا کہ اگر آپ کی نوجوان نسل جو آبادی کا 60فی صد ہے اپنی روزمرہّ زندگی سے مطمئن نہیں۔ امید کھوبیٹھی ہے تو اس کے ذہن کو زور زبردستی بدلنے کے بجائے نہایت خلوص سے سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ وہ اپنے دل کی بھڑاس اگر سوشل میڈیا کے یوٹیوب، فیس بک یا ٹویٹر جیسے پلیٹ فارموں کے ذریعے نکال رہے ہیں تو اس پر پریشر ککر والا ڈھنکنا لگانے سے اجتناب برتیں۔ انٹرنیٹ تاریخی تناظر میں تقریباََ گزرے دن ایجاد ہوا ہے۔ اس کی ایجاد سے قبل لیکن میری جوانی  میں دو تحاریک چلیں۔ پہلی کا آغاز اکتوبر1968میں ہوا تھا۔ اس کی وجہ سے ایوب خان استعفیٰ دینے کو مجبور ہوئے۔ انٹرنیٹ کی عدم موجودگی اور روایتی میڈیا پر کامل حکومتی اجارہ دار کے باوجود مارچ 1977میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف بھی اس برس ہوئے انتخاب میں دھاندلی کے الزام لگاتے ہوئے تحریک چل پڑی۔ ریاستی جبر اس پر قابو پانے میں قطعاََ ناکام رہا۔ بالآخر 5جولائی 1977کو جنرل ضیاء مارشل لاء سمیت وطن عزیز پر مسلط ہوگئے۔ ان کے خلاف بھرپور انداز میں کوئی عوامی تحریک نہ چل پائی تو وجہ اس کی معاشی میدان میں لگی وہ ’’رونق‘‘ تھی جو ’’افغان جہاد‘‘ کی بدولت ہمیں وقتی طورپر نصیب ہوئی تھی۔
پاکستان کی سیاسی تحاریک کا جائزہ اخباری کالم کے ذریعے ممکن نہیں۔عرض صرف یہ کرنا ہے کہ پاکستان کو انتشار وخلفشار سے محفوظ رکھنا ہے تو نوجوانوں کے دلوں میں امید کی جوت جگائیں۔

ای پیپر دی نیشن