سید والا (نامہ نگار) گوادر پورٹ کے بننے کے دوران انتھک کوششوں کے اعتراف میں سول اعزاز ہلال امتیاز حاصل کرنے والی شخصیت ، سابقہ وفاقی سیکرٹری بحری امور، سابق وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کے سابق پرنسپل سیکرٹری آغا سرور رضا المعروف آغا علی جان گل نے ’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘ کے موضوع پر اپنے ماضی کو کریدتے ہوئے روزنامہ نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان بنا میں کم سن تھا لیکن قیام پاکستان سے پہلے اور قیام پاکستان کے دوران میں نے جو کچھ دیکھا مجھے اب بھی یاد ہے بلکہ یہ یادیں میری زندگی کا سرمایہ ہے میرے خاندان نسلوں سے ملتان میں آباد ہے۔ میرے نانا سردار بہادر جنرل محمد افضل خان برٹش آرمی میں جنرل کے عہدے پر فائز تھے جبکہ میرے دادا خان بہادر میجر سرور خان آرمی کی نوکری کے بعد عراق کے گورنر رہے۔ میرے ماموں آغا محمد شریف خان آف سید والا کا شمار مسلم لیگ کے سرکردہ رہنمائوں میں ہوتا تھا۔ وہ حضرت قائد اعظم کے کافی قریب تھے۔ میں کم سن ہونے کے باوجود اکثر ضد کر کے ان کے ساتھ مسلم لیگ کے جلسوں اور بعض اوقات میٹنگز میں بھی چلے جایا کرتا تھا۔ وہ برصغیر کے مسلمانوں کو حقیقی بیداری کے دن تھے۔ ہر مسلمان اپنا تن من دھن تحریک آزادی پر قربان کرنے کو ہمیشہ وقت تیار رہتا تھا۔ اسی خوشی اور جذبے نے پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا۔ برصغیر کے مسلمانوں کی بہت سی تلخ اور المناک یادیں بھی جڑی ہوئی ہیں۔ مجھے یاد ہے جب پاکستان بننے کے بعد مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کے لیے قافلے اوپر پہنچے تو ان کی حالت بہت خراب ہوتی تھی۔ ریل گاڑیوں، بیل گاڑیاں اور سینکڑوں میل پید چل کر اوپر آنے والے مسلمانوں کی حالت بہت خراب تھی۔ اکثر ذہنی مریض بن چکے تھے اور بہت سے زیادہ زخمی بھی تھے کسی خاندان کے بھی پورے افراد ادھر زندہ سلامت نہیں پہنچے۔ ہندوئوں بالخصوص سکھوں نے جگہ جگہ مہاجرین کے قافلوں پر حملے کئے۔ بہت سے مسلمانوں نے اپنی عزتیں بچانے کے لیے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتارا۔ مجھے یاد ہے کہ مسلمان لڑکے اور لڑکیاں بھی صبح سویرے گھر سے نکل جاتی تمام دن مہاجرین کی خدمت کرتے ان کی ضرورتوں کو پورا کرتی بیماروں اور زخمیوں کے علاج معالجے کی سہولتیں مہیا کرتے۔