مکرمی! 9-12-2010کے نوائے وقت میں خط بعنوان ’’بڑے دُکھ کی بات‘‘ شائع ہوا ہے جس میں محترم بھائی اسلم چوہان ایڈووکیٹ نے برادرم بابر فاروق ایڈووکیٹ کی تحریر پر اظہار افسوس کیا ہے۔ ایڈووکیٹ کے ناطے دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ عقل و دانش اور اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے عدلیہ اور ایڈووکیٹ حضرات کا میں احترام کرتا ہوں۔ بحالی عدلیہ کا ریکارڈ گواہ ہے۔ مدت دراز میری خدمات اسی شعبہ سے وابستہ رہی ہیں۔ ہر اسمبلی کے ممبر کو تعلیم یافتہ ہونے کا مشورہ میرا ہی دیا ہوا 1995ء کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ تنقید، مخالفت اور اعتراض کا دستور ازل سے جاری ہے۔ ان میں سب سے بہتر درجہ اختلاف کا ہے جس کے سبب دنیا کی ترقی تسلسل سے برقرار ہے۔ ’’اک تغیر کو ثبات ہے زمانے میں‘‘۔ اس کائنات میں بقول خداوندی ’’ہم نے ہر نفس کو اس کی انفرادیت پر پیدا کیا ہے‘‘۔ اسی سبب اربوں، کھربوں انسانوں میں کسی کی عقل یا شکل دوسرے سے نہیں ملتی۔ ساتھ ہی حکم ربی ہے۔ تم بات صاف اور سیدھی کیا کرو، اور دیکھو، کسی کو مغالطے میں مبتلا کرکے اپنا مطلب نہ نکالو۔ بھائی چوہان صاحب پہلے تحقیق فرمائیں کہ باہر صاحب کا بیان سچ ہے تو اس سچ سے قوم کے بچے بچے کو آگاہی ضروری ہے۔ بالخصوص اگلی نسلوں کی بہتری کیلئے سنا ہے انسان کی شخصیت و کردار پر اس کے نام کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا: ’’تم نام اچھے اور بامعنی رکھا کرو‘‘۔ بابر فاروق ایڈووکیٹ تین الفاظ پر مشتمل ہے۔ اس کے معنی ہمت والا شیر، سچ جھوٹ میں فرق کرنے والا، اور سہارا، یعنی مدد دینے والا، اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان، زوال پذیر اس معاشرہ میں ذاتی مفادات سے ممبرا حق اور سچ کہنے والے ایسے انسان کا دم غنیمت جانئے۔ حوصلہ افزائی کیلئے اس کی ہمت کی داد دیجئے۔ نکتہ نظر کی بات ہے۔ آپ کا جذبہ بھی لائق تحسین ہے۔ لعن طعن اور سرزنس جھوٹ کی کیجئے جو ایک سچ نہ بول کر سو جھوٹ کو جنم دیتی ہے۔ اِلّایہ کہ …قسم کھا کر بھی جھوٹ…توبہ استغفار…اس بیمار معاشرے کے علاج کی خاطر کڑوی گولی تو کھانی ہی پڑے گی اور سدباب کوئی مرد آہن ہی کر سکے گا۔ عدلیہ اور ایڈووکیٹ کا اولین فرض سچ کی تلاش ہی تو ہے۔سچ کو مخفی رکھنا ہی قومی المیہ ہے۔ سچائی کو منظر عام پر یا خفیہ مقام پر…کہاں ہونا چاہئے؟ دعا ہے آپ سب کو ملک و قوم کو اللہ تعالیٰ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین
(ایم۔اے۔زکی، کارکن تحریک پاکستان)