ایک ’جوہری قوت‘ کے جسم پر ’دہشت گرد کا ڈھے‘ چھوڑ دیئے گئے اور ان ’دہشت گردوں‘ کا نام لے لے کر ہمارے جوہری اثاثے ’غیر محفوظ‘ قرار دیئے جانے لگے! ’یہ اثاثے کسی وقت بھی دہشت گردوں کے ہاتھ آ سکتے ہیں!‘ اس ’کہانی‘ کی ’حقیقت‘ وکی لیکس کی جاری کردہ دستاویزات سے ظاہر و باہر ہوگئی! مگر ہمارے ’لب اقتدار‘ تک نہ آسکی! کیونکہ ہم ’بلیم گیم‘ میں پڑنا پسند نہیں کرتے اور بھارتی دراندازوں پر ہاتھ اٹھا کر ’ظالم‘ بھی نہیں قرارپانا چاہتے! لہٰذا اس سے پہلے کہ ہم وزیرستان اور بلوچستان میں کارفرما بھارتی دراندازوں کی کارستانیوں کا ڈھول پیٹنا شروع کرتے، ہمارے دوہری شہریت کے حامل وزیر خزانہ نے آر جی ایس ٹی کا ڈھول پیٹنا شروع کردیا! اب اس نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سن پاتا! وکی لیکس کی دستاویزات کی طرف کون نظر اٹھاتا! اس شور پرایک شیر کی دھاڑ ہی سنائی دے سکتی تھی! سو، وہ آواز گرجی اور نقارخانوں کے ’چوب کار‘ سہم کر اپنی چوبوں سمیت اپنے اپنے نقارے کی اوٹ میں جا چھپے! بلاشبہ پاکستانی ’گھوڑوں‘ اور بھارتی ’کھوتوں‘ کا فرق واضح کرنا ’وقت‘ کی پکارتھا!
پاکستان مسلم لیگ کے قائد جناب نوازشریف ’جوہری جمہوری پاکستان‘ کے سپوت ہیں اور پاکستان مسلم لیگ کے تمام دھڑے اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ’جوہری قوت‘ کا اظہار پاکستان مسلم لیگ کا کارنامہ ہے مگر ’انا‘ راستے کی دیوار ہے! جی ایلگور نے جارج ڈبلیو بش سے انتخاب جیت کر بھی ہارتے ہوئے کہا تھا،’امریکہ، جب تک ہماری ’انا‘ سے بڑا ہے! دنیا کی سب سے بڑی قوت رہے گا!‘ ہمارے ہاں چوہدری اور میاں تو ہیں، سید بھی ہیں، مرزا بھی ہیں، افغان بھی ہیں مگر کسی کی ’انا‘ بھی ’پاکستانی قوم کی انا‘ سے کم نہیں! ہم اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے پاکستانی قوم کی ناک کاٹنے سے بھی گریز نہیں کرتے! ہم اپنے محسنوں پر ’قید‘ نافذ کردیتے ہیں، اپنے جوہری اثاثے ’ریٹائر‘ کر دیتے ہیں، تاکہ اپنا ’تاج‘ اپنا تخت بچا سکیں! ہم اپنا ’قائد‘ جلاوطن کروا دیتے ہیں مگر ’قوی سچ‘ ہماری زبان پر آنے سے پہلے پہلے ہماری زبانوں پر چھالے ڈال دیتا ہے کیونکہ ہمارے ضمیر پر اب تک ہماری ذاتی مصلحتوں کے پہرے ہیں! جناب پرویز الٰہی بھی مولانا فضل الرحمن کی طرح ’وزارت عظمیٰ‘ پر لٹو ہیں! پتہ نہیں ان دونوں لٹوﺅں پر ’جالی‘ کس نے اتنی کس کر لپیٹی تھی اور بساط سیاست پر اتنے زور سے دے ماری تھی کہ دونوں ’لٹو‘ ابھی تک ہزار ہزار بار ڈگمگا ڈگمگا کر بھی گرنے کا نام ہی نہیں لے رہے! لوگ سمجھتے ہیں کہ ’چی‘ رکھتی ہے مگر ’وکی لیکس‘ کا کہنا ہے کہ نہیں، ’ابھی تو’سونتا‘ بوتل لینے گیا ہے!‘
ادھر نوازشریف آر جی ایس ٹی کا ’ڈرون حملہ‘ روکنے میں لگے ہیں اور ادھر بابر اعوان بول اٹھتے ہیں،’نوازشریف دوسروں پر تنقید کی جگہ اپنے بھائی کو ’گڈ گورننس‘ کا سبق دیں!‘ لہٰذا پرویز رشید کی نرم زباں بھی ہڈیوں پر آری چلاتی سنائی دی،’اچھے کام کی مخالفت اور بُرے کام کی حمایت پی پی کا وتیرا ہے!‘ لہٰذا پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے مسلم لیگ کے قائد سے ’ٹیلی فونک خطاب‘ فرمانا ضروری گردانا اور انہیں مل جل کر جمہوریت کی راہ پر لانا پڑا! جناب نوازشریف پر زرداری بھائی کے ٹیلی فونک خطاب کے ہولناک اثرات واضح ہوئے تو پتہ پڑا کہ اتفاق رائے ہوگیا! لہٰذا ہم نے بھی اسی تنخواہ پر کام کرتے رہنے کا فیصلہ کر لیا اور صدرمملکت کی عالی ظرفی کے گن گانے کے کام سے لگ گئے! کہ ہم تو ’قائد‘ کے پیچھے ہیں!
ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ’نشان عزم عالی شان‘ بلند ہو اور مسلم لیگی ذہن کے لئے مشعل راہ بنے، ورنہ اپنی اپنی انا کے اسیر ہم سب کو لے دے جائیں گے! ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں! اب کم از کم پاکستان مسلم لیگ کو تو ہماری اناﺅں سے بڑا ہوجانا چاہئے!