”صرف میں پوتر“ ۔ باقی سب چور

”امریکہ“ کے بعد اب ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ بھی آگئی جس کے مطابق ”پاکستان “ بد عنوان ممالک کی فہرست میں ترقی کر کے 42 ویں سے اب 33 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ سالوں کے دوران ملک میں 12 ہزار 600 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ پاکستان کی خراب اقتصادی حالت ۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں اضافہ جیسے مسائل سے اب ہمیں ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ مسائل ہم حل نہیں کر سکتے اور نہ ہی ہمارے حکمران ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ہم اپنے قومی مزاج کے عین مطابق کسی نہ کسی تماشے یا کھیل میں ڈھول بجنے کا منظر ہی بس دیکھتے رہنے کو اپنا شعار بنا رہنے دیں۔ اب اگر ہماری پوزیشن 42 ویں نمبر سے 33 ویں پر آگئی ہے تو لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت کیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ ”کرپشن“ لفظ کی معنویت کو کس طرح اور کن حدود تک اس کا استعمال، پھیلا¶ سمجھتے ہیں۔ لفظ ”کرپشن“ کہاں سے کہاں ؟؟ کن کن معنوں میں مستعمل ہے؟ کرپشن صرف مالیاتی چوری۔۔لوُ ٹ کھسُوٹ کا ہی نام ہے یا دیگر اخلاقی جرائم بھی اس لفظ کے دائرہ عمل میں آتے ہیں؟ہماری معاشرتی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اوائل عمر ی سے ہی بچے سے جھوٹ بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ روتے یا ضد کرتے ہوئے بچے کو چپ کرا نے کے لئے یا پھر رات کو سُلانے کے لئے کسی جن یا بھوت کا ڈراوا دیتے ہیں۔ تھوڑا وقت گزرنے کے بعد ہم جان چُھڑانے کے لئے بچے سے بلاجھجک جھوٹ بولتے ہیں۔ ہم دوسرے لوگوں بالخصوص ”حکمرانوں “ کو ہر وقت کوسنے دیتے تو نظر آتے ہیں کہ ”فلاں“ نے اتنی کرپشن کی۔ فلاں نے بیرون ممالک اتنے پیسے جمع کروا دئیے۔ مگر یہ نہیں سوچتے کہ ”اخلاقی لحاظ“ سے ہم خود کہاں کھڑے ہیں۔ کوسنے دینے والوں میں سے کتنے ہیں جن کو اگر آج موقع مل جائے تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ کرپشن نہیں کرے گا۔ نہیں محترم قارئین۔ ہمارے خود کے گھر ”کرپشن کی نرسریاں“ ہیں۔ عصرِ موجود کا چار سا ل کا بچہ بھی آپ کو فراٹے بھرتی زبان میں پیچھے چھوڑ جائے گا۔ کیونکہ ہم ایک ایسے معاشرے کے باسی ہیں جہاں اےک روپیہ اُدھار واپس مانگنے پر بعض اوقات قتل ہوتے پڑھے اور سُنے ہےں۔ ہم مالا تو جمہورےت کی جپتے ہیں مگر ہمارے طور طریقے۔ رنگ ڈھنگ۔ مزاج آمرانہ ہیں بلکہ کئی صورتوں میں ہم اےک جاہل، اجڈ جنگلی قوم کو بھی مات دیتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں کرپشن کا ناسور ختم کرنا ہے تو ابتداءاپنی ذات سے کرنا ہو گی۔ ”جےسی رعایا ویسی پر جا“ مقولے اب غلط ہونے سے تو رہے۔جوں جوں عام انتخابات کا غلفلہ بلند ہو ا ہے توں توں سیاسی مدوجزر میں بھی مزید اُبال آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ضمنی انتخاب کے بعد سیاسی لےڈروں کے بیانات جوابی الزامات۔ جلسوں سے خطاب کا سٹائل۔ ہمیں 1970ءکے الیکشن کی یاد دلاتا نظر آتا ہے۔ 10 سال کی مکمل جمہوری سیٹ اپ۔ ایک رضا مند ”بی بی ٹائپ“ اپوزیشن کا دور لگتا ہے لد چکا ہے۔کسی بھی لیڈر کا بیان پڑھ لیں۔ کچھ اسی ٹائپ کا ہے کہ عام الیکشن، ملک کی سالمیت کا الیکشن ہوگا۔ ہرگز نہیں جناب صاحبان یہ ملک قائم ہے اور قائم رہے گا۔ 65 سالہ کرپشن بدانتظامی۔ سیاسی نااہلی۔ کمزوری اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی کہ آج بھی حرام کھانے والے یومیہ ”7 ارب روپیہ“ کھا رہے ہےں۔ اپنے مفادات۔ شخص اقتدار خاندانی پارٹی وراثت کو سالمیت کا لبادہ مت پہنائےں۔ اس کو بچانے والے کروڑوں میں آج بھی موجود ہیں اور چوکس ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کی بنیاد اصل مسائل پر رکھیں۔ ایشوز کی سیاست کریں۔ محترم صاحبان، معیشت اور سکیورٹی پر فوکس کرےں۔ امن و امان کی ابتری اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ٹیکس چوری، مالیاتی بدنظمی، کرپشن ہماری معیشت کے بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں تو سکیورٹی کا مسئلہ بھی ہماری پتلی معاشی حالت کی مزید تنزلی کا باعث بن رہا ہے۔ سیکورٹی کی غیر یقینی صورتحال کے باعث ہمارا اپنا صنعتکار، تاجر بھی باہر کے ممالک میں کافی سالوں سے اپنے یونٹس لگا چکے ہیں۔ اس طرح غیر ملکی سرمایہ کاری میں کافی سالوں سے کوئی اضافہ نہیں دیکھا گیا بلکہ کمی ہی رےکارڈ ہو رہی ہے۔ باوجود اس کے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے نہایت فراخدلانہ پالیسیاں متعارف کرائی گئیں مگر پاکستان اپنی لبرل اور کھلی پالیسیوں کے باوجود بھی ایک ”منفی تاثر“ کی زد میں ہے۔ اب ہمیں ”سالمیت ۔ سالمیت“ ”چور چور“ کھیلنے کی بجائے اصلاح احوال کی طرف توجہ مبذول کرنی چاہئے۔ ہمارے تمام مسائل کا حل اےک اچھی توانا معیشت ہے۔ بس اب کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور قومی معیشت کے احیاءکے لئے اب آئندہ حکومت کو اسے اپنی ترجیح بنانا ہو گا کیونکہ آج تک کسی بھی حکومت نے معیشت کی طرف کبھی سیریس توجہ ہی نہیں دی۔ پاکستان زندہ باد!

ای پیپر دی نیشن