”نوائے وقت“- ایک یونیورسٹی.... ڈاکٹر مجید نظامی

پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کی نظریاتی سوچ کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے ایک اور کامرانی کا پھول اپنی دستار میں اس وقت سجایا جب انہوں نے پاک دل و پاک باز مردِ صحافت مجید نظامی کے اعزاز میں ظہرانہ دیا۔ یہ ظہرانہ صرف دسمبر کی دھوپ میں ایک لذیذ اور ذائقے دار ظہرانے تک ہی نہ رہا بلکہ یہ ایک نظریاتی بڑا کھانا ہوگیا۔ ابھی وطنِ عزیز کی فضائیں مجید نظامی صاحب کی ڈاکٹریٹ کی خبروں اور کالموں کی مہک سے معطر ہو ہی رہی تھیں۔یوں تو اس مردِ خدا مجید نظامی کی ذات کسی طالب علمانہ ڈگری کی محتاج نہ تھی کیونکہ ادارہ ”نوائے وقت“ خود کئی یونیورسٹیوں پر بھاری ہے اور حمید نظامی مرحوم سے لیکر آج تک مجید نظامی صاحب کی ادارت میں اس موقر ادارے نے قوم کی بغیر کوئی کلاس لگائے فکری، نظریاتی، سیاسی، مذہبی اور معاشرتی رہنمائی فرمائی۔”نوائے وقت“ اس وقت مسلمانوں کی آواز بنا جب نحیف و نزار جثے کے مالک ہمارے کوہ صفت محبوب قائد محمد علی جناحؒ تحریک پاکستان کی قیادت فرما رہے تھے۔جہاں تک استحکام پاکستان کیلئے کاوشوں کا تعلق ہے تو یہ مجید نظامی کی سپہ سالاری میں آبِ زر سے لکھی جانے کے قابل ہیں کہ خوفناک آمریتوں کے سامنے ڈٹ جانے والا واحد اخبار ”نوائے وقت“ ہی تھا۔قائداعظمؒ کے افکار کی روشنی میں مادرِ ملت کی لالٹین ”نوائے وقت“ ہی نے اٹھائی۔ ایوبی آمریت کے سامنے ”جنا“ ہونے کا ثبوت نوائے وقت کے بانکے ایڈیٹر ہی نے دیا۔یحییٰ خاں کی خودمستیوں اور بدمستیوں کی کتھا بیان کرنے کا سہرا بھی نوائے وقت کی پیشانی پر ہی سجا۔بھٹو صاحب کو میدان میں اتارنے اور ازاں بعد انکی جمہوری قبا اتارنا بھی اسی موقر یونیورسٹی کا کام ہے۔ ضیاءالحق کے سامنے کلمہ حق کہنے کا اعزاز بھی مجاہدِ پاکستان کو حاصل ہے۔ بے نظیر اور نوازشریف کی جمہوریت کو صراطِ مستقیم دکھانے کا فریضہ درسِ نظامی ہی نے ادا کیا۔ مشرف کا برا حال کرنے کا شرف بھی اسی چٹان صفت ایڈیٹر کو حاصل ہے۔عدلیہ کی تحریک میں بھی بغیر کسی مفاد کے قوم کی درست سمت میں رہنمائی اور قانون و انصاف کا بول بالا کرنے کا افتخار بھی ”نوائے وقت“ یونیورسٹی نے حاصل کیا۔ مردِ حُر کو بھی ڈگری اسی یونیورسٹی نے عطا کی۔ شہبازشریف بھی رہنمائی کیلئے اسی درسگاہ کا رخ کرتے ہیں۔ آمریت کیخلاف جنابِ مجید نظامی صاحب نے اپنے برادرِ بزرگ کی وفات کے بعد نوجوانی میں جو عَلم اٹھایا تھا، وہ آج بھی اسی عزم و استقامت کے ساتھ بلند کئے ہوئے ہیں۔کالا باغ ڈیم کیلئے جو مہارت بڑے بڑے انجینئر نہ دکھا سکے، وہ ڈاکٹر مجید نظامی نے دکھائی ہے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کے ذہنِ رسا کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے مجید نظامی صاحب کو اعزازی ڈگری دیکر پنجاب یونیورسٹی کی شان میں مزید اضافہ کیا ہے۔ خاکسار کو بھی پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار اور پروفیسر ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر کی نگرانی میں مقالہ لکھ کر ڈاکٹر مجاہد کامران کے ہاتھوں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔علامہ اقبالؒ نے اپنی شہرہ¿ آفاق نظم ”مسجدِ قُرطبہ“ کا پانچواں بند ”بندہ¿ مومن“ کی صفات کیلئے مختص کیا ہے۔ اس بند کا مطالعہ کرتے ہوئے مجید نظامی جیسی شخصیات کی تصویر سامنے آتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے ....تجھ سے ہوا آشکار بندہ¿ مومن کا رازاس کے دنوں کی تپش، اس کی شبوں کا گدازاس کا مقامِ بلند، اس کا خیالِ عظیماس کا سرور، اس کا شوق، اس کا نیاز، اس کا نازہاتھ ہے اللہ کا بندہ¿ مومن کا ہاتھغالب و کار آفریں، کارکُشا، کارسازخاکی و نوری نہاد، بندہ¿ مولا صفاتہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیازاس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیلاس کی ادا دل فریب، اس کی نگہ دل نوازنرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجورزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک بازجہاں ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے سینکڑوں صحافیوں اور ایڈیٹروں کی تربیت کی وہاں وہ ”نوائے وقت“ کا مستقبل بھی محفوظ کرنا نہ بھولے۔ اپنے والد کا عکس محترمہ رمیزہ نظامی ”نوائے وقت“ اور ”وقت نیوز“ پر بھی اسی نظریاتی تصور و کردار کو آگے بڑھا رہی ہیں جو ”نوائے وقت“ یونیورسٹی کا سلیبس ہے۔پاکستان میں بڑے اخباروں میں کوئی ایسا بڑا کالم کار نہیں جس نے ”نوائے وقت“ سے ڈگری نہ لی ہو۔ یہاں کام کرنیوالے بھی اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ انہیں جو تعلیم و کردار کسی یونیورسٹی سے حاصل نہ ہوسکا، وہ یہاں کام کرکے مع تنخواہ پاتے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ مجید نظامی کی زرہ اور پنہ دونوں لا اِلٰہ اِلا اللہ ہے۔ وقت کے نمرودوں اور فرعونوں سے انکی پنجہ آزمائی صرف حق کا بول بالا کرنے کیلئے ہے۔ انکا جذبہ صادق ہے اور ایمان پختہ ہے، اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں عزت و وقار عطا فرمایا ہے۔

ای پیپر دی نیشن