اس سے پہلے کہ مشرق تا مغرب ”طالبات“ کا پروپیگنڈا شروع ہو جائے، نام نہاد حکومت کو سوات کی بچیوں کی نفسیاتی الجھن کی جانب توجہ دینی چاہئے۔ میڈیا کے مطابق سوات کی ایک طالبہ ملالہ یوسف زئی پر طالبان نے قاتلانہ حملہ کیا اور بعد میں طالبان نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کر لی۔ اس واقعہ کے بعد سوات کے علاقے میں سراسیمگی پھیل گئی اور لڑکیوں نے سکول جانا چھوڑ دیا۔ معاملہ ذرا ٹھنڈا ہوا تو سکول کھول دئیے گئے اور والدین نے حوصلہ کرکے اپنی بچیوں کو سکول بھیجنا شروع کر دیا۔ ادھر ملالہ بھی صحت مند ہو گئی اور مشرق تا مغرب حکومتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ملالہ کو اعزازت سے نوازنا شروع کر دیا جبکہ ملالہ کے آبائی علاقے کے لوگ اس واقعہ کے بعد نفسیاتی دباﺅ کا شکار ہو گئے اور ملالہ مخالف جذبات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ اس کی ایک حالیہ مثال سوات کی طالبات کا ملالہ کے خلاف شدید احتجاج ہے۔ عالمی شہرت یافتہ طالبہ ملالہ یوسف زئی کے آبائی ضلع سوات کے علاقے سیدو شریف میں ایک گرلز کالج کو ملالہ سے منسوب کرنے کے خلاف طالبات نے سخت احتجاج کیا۔ ”گورنمنٹ ملالہ کالج فار گرلز“ کی ڈیڑھ سو سے زائد طالبات اپنی کلاسوں کا بائیکاٹ کرنے کے بعد سڑک پر نکل آئیںاور کالج کے باہر آویزاں ملالہ کی تصاویر پھاڑ ڈالیں اور ان پر پتھر برسائے۔ مشتعل طالبات کا کہنا تھا کہ کالج کو ملالہ کے نام سے منسوب کرنے کے نتیجے میں وہ بھی دہشت گردوں کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ سوات کی طالبات کے اندر ملالہ کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کا احتجاج کی صورت میں اظہار کیا گیا۔ گرلز کالج کو ملالہ کے نام منسوب کرنے کو زیادتی قرار دیا جا رہا ہے۔ ملالہ کی تصاویر پر پتھر برسا نے والی طالبات کا کہنا تھا کہ ملالہ خود تو برطانیہ منتقل ہو گئی لیکن ہم جیسے غریبوں کو اس کے برطانیہ جانے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایک طالبہ نے کہا کہ جب ملالہ کو پاکستان واپس آنا ہی نہیں تو پھر اس کے نام سے تعلیمی درسگاہوں کو منسوب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ان طالبات کے باپ ملالہ کے باپ کی طرح ”سمارٹ“ نہیں اور نہ ہی مغربی میڈیا تک ان کی رسائی ہے۔ ان لوگوں کو اس پاکستان میں رہنا ہے جو ”طالبان“ کا پاکستان کہلاتاہے اور یہ لوگ نہیں چاہتے کہ ان کی بچیوں کو ”طالبات“ کا نام دے دیا جائے۔ مغرب پاکستانی منفی رد عمل کو نام دینے میں تا خیر نہیں کرتا۔ ملالہ ایک کم عمر طالبہ ہے جس کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا مگر جب اسے یہ احساس دلایا گیاکہ کچھ لوگ لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں تو اس نے ان کے خلاف آواز اٹھائی جس کے ردعمل میں اس پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ملالہ معجزانہ طور پر بچ گئی اور اعلیٰ علاج کے لئے اسے برطانیہ بھیج دیا گیا۔ ملالہ کو اعلیٰ اعزازت سے نوازا جا رہا ہے جو پاکستان کے لئے فخر کا باعث ہے۔ اس کا کریڈٹ زرداری حکومت کو بھی جاتا ہے جس نے ملالہ کے باپ کو دنیا میں نہ صرف بلکہ یو این میں عہدہ بھی دلوا دیا، نام دلایا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے پہلی بار لڑکیوں کا عالمی دن منایا گیا۔ اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے ملالہ کے نام سے ایک فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا جبکہ ملالہ کے والد ضیا¿الدین کو تعلیم کے لئے عالمی ادارے کا خصوصی سفیر مقرر کیا گیا ہے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ ملالہ اور اس کی فیملی کو امریکہ منتقل کر دیا جائے گا۔ ملالہ پر قاتلانہ حملے کی خبر کے بعد دنیا بھر میں اس کی زندگی کے لئے دعائیں کی گئیں اور اس کی سلامتی پر شکرانہ ادا کیا گیا۔ ملالہ کو ”دُخترِ پاکستان“ کا خطاب بھی دیا گیا ہے، اس سے پہلے بے نظیر بھٹو کو دُخترِ پاکستان کہا جاتا تھا اور اب تو مریم نواز بھی دُخترِ پاکستان کہلانے لگی ہیں۔ پاکستان کی ہر بیٹی دُخترِ پاکستان ہے اوریہ اعزاز اسے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے دیا۔ ملالہ یوسف زئی کے واقعہ سے پریشان طالبات بھی پاکستان کی بیٹیاں ہیں، ان کے خدشات دور کرنے کی فوری ضرورت ہے ورنہ ان کا غم و غصہ ان کو ”طالبات“ بنا دے گا۔ ایک عام تاثر ہے کہ سوات اور دیگر قبائلی علاقوں میں انتہا پسند افراد لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں جبکہ پاکستان کے ماڈرن شہروں میں لڑکیاں بھی تعلیم سے محروم ہیں اور اس کی وجہ انتہا پسندی نہیں بلکہ غربت ہے۔ ملالہ یوسفزئی اپنے علاقے کے مرد کے ظلم کے خلاف ایک علامت بن گئی ہے جبکہ اصل پاکستان صرف ملالہ نہیں، پاکستان کی اکثریت اپنے بچوںکو تعلیم دلانا چاہتی ہے مگر ان کے پاس وسائل نہیں۔ مشرق تا مغرب طالبان کے مظالم کی بات تو کی جاتی ہے مگر پاکستان کی ان لڑکیوں کا تذکرہ نہیں کیا جاتا جن کے درسگاہوں میں داخلے بھی ہو جاتے ہیں مگر وہ فیس نہ دے سکنے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں۔ ملالہ کا باپ ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہو گیا ہے، امید ہے کہ تعلیم کے سلسلے میں وہ اپنے علاقے کو ترجیح دے گا اور خو ف و ہراس میں مبتلا طالبات کو تحفظ اور ہر طرح کی تعلیمی سہولیات پہنچائے گا۔