سینٹ : وزراءکی عدم موجودگی‘ انکم ٹیکس ادا نہ کرنے کے بارے میں رپورٹوں کیخلاف احتجاج


اسلام آباد (خبرنگار+نوائے وقت نیوز+ ایجنسیاں) سینٹ کا اجلاس صابر بلوچ کی زیر صدارت ہوا اجلاس جب شروع ہوا تو صرف 6 ارکان سینٹ موجود تھے۔ سینٹ اجلاس میں کوئی وفاقی وزیر جواب دینے کے لئے موجود نہ تھا۔ وزراءکی عدم موجودگی پر سینٹ ارکان نے شدید احتجاج کیا۔صدر، بعض ارکان پارلیمنٹ اور سنیٹروں کے بارے میں میڈیا میں انکم ٹیکس ادا نہ کرنے کے بارے میں رپورٹوں پر بھی ارکان سینٹ نے شدید احتجاج کیا۔ طاہر مشہدی نے کہا وزراءکی آئینی ذمہ داری ہے کہ ایوان میں پیش ہو کر جواب دیں، ڈپٹی چیئرمین صابر بلوچ نے کہا وزراءکی ایوان میں عدم موجودگی بدقسمتی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ جب وزیراعظم ہی ایوان بالا کو اہمیت نہیں دیتے تو وزراءیہاں پر کیسے آئیں گے۔وزیرمملکت برائے پیداوار خواجہ شیراز محمود نے کہا ہے کہ کراچی سٹیل ملز میں بے قاعدگیاں میرے استعفیٰ کی وجہ سے ختم ہو سکتی ہیں اور بہتری آسکتی ہے تو میں مستعفی ہونے کیلئے تیار ہوں۔ ان بے قاعدگیوں کا دفاع نہیں کر سکتا۔ قائمہ کمیٹی میں متعلقہ حکام کو بلوایا جائے۔ وزیر مملکت کی ر ائے کے بعد قائم مقام چیئرمین سینٹ سینیٹر صابر بلوچ نے سٹیل ملز کے حسابات کے بارے میں آڈٹ رپورٹ پر عملدرآمد نہ ہونے کا معاملہ متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا ہے۔ سینٹ کا اجلاس شروع ہوا تو وزارت فوڈ، سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے وزیر تھے اور نہ ہی وزیر مملکت موجود تھے۔ اسی طرح ایوان میں وزارت صنعت کے وزیر اور وزیر مملکت بھی غائب تھے۔ سینیٹر زاہد خان، سینیٹر مشاہد اللہ خان، سینیٹر طاہر حسین مشہدی، سینیٹر بیگم نزہت صادق سمیت دیگر نے شدید احتجاج کیا۔ سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ وزیراعظم نے ایوان بالا میں آنا تھا وہ سینٹ کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ وزراءکس طرح آئیں گے یہ معاملہ اٹھاتے اٹھاتے تھک گئے ہیں۔سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ لگتا ہے کہ وزراءسوئے ہوئے ہیں جب یہ کام نہیں کر سکتے تو اپنے عہدے کیوں نہیں چھوڑتے۔خواجہ شیراز محمود نے کہا کہ جنہوں نے قصور کیا ہے انہیں بلایا جائے کسی کا دفاع نہیں کروں گا۔ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ وزیر موصوف اگر کرپشن نہیں روک سکتے تو مستعفی ہو جائیں۔ خواجہ شیراز محمود نے کہا کہ میرے استعفی سے معاملات ٹھیک ہو سکتے ہیں تو میں مستعفی ہونے کے لیے تیار ہوں۔ قائم مقام چیئرمین سینٹ نے کراچی سٹیل ملز میں کرپشن سے متعلق اس رپورٹ کا معاملہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا ہے۔ علاوہ ازیں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے سینیٹر شجاعت حسین نے ایوان کو بتایا کہ انہوں نے 29 دسمبرکو اپنا ٹیکس جمع کرا دیا تھا۔ میڈیا میں نشر ہونے والی رپورٹ بے بنیاد ہے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ صدر پاکستان جنہیں استثنیٰ حاصل ہے اس کے باوجود انہوں نے باقاعدہ ٹیکس جمع کرایا اگر یہاں پر صدر اور وزیراعظم بھی محفوظ نہیں تو باقیوں کا کیا حال ہوگا۔ کامل علی خان نے کہا کہ جس طرح میڈیا نے ارکان پارلیمنٹ کے بارے میں رپورٹ شائع کی اسی طرح میڈیا کے تمام گروپس اور اداروں کی بھی رپورٹس جاری کرنا چاہئے تاکہ قوم کو معلوم ہو کہ کس نے کتنا ٹیکس دیا ہے۔ قائم مقام چیئرمین سینٹ صابر بلوچ نے کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ کتنے ٹی وی چینلز نے کہا کہ ان کے ٹیکس معاف کئے جائیں۔ حاجی عدیل نے کہا کہ خیبر پی کے میں حالات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے جبکہ زرعی ٹیکس میں چھوٹ ہے۔ وقفہ سوالات کے دوان وزیرمملکت برائے انڈسٹری خواجہ شیراز نے ایوان کو بتایا کہ پاکستان سٹیل مل کو مالی سال 2011-12ءکے دوران 21 ارب کا نقصان ہوا ہے۔ یہاں پر کرپشن کے الزامات پر جن افسران کے خلاف انکوائریاں ہو رہی ہیں ان میں سے کسی ایک کے بارے میں حتمی رپورٹ ابھی تک وزارت کو نہیں ملی۔ سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ سٹیل مل میں صرف چار آدمیوں نے 221 ارب روپے کی کرپشن کرکے رقم جیب میں ڈال لی ہے۔ حاجی عدیل نے کہا کہ وزیراعظم کو چاہئے کہ ایسے چوروں کو فوری طور پر فارغ کرنے کے احکامات جاری کی جائیں۔سینٹ کا اجلاس آج صبح 10 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن