ڈالراوپن مارکیٹ میں اٹھانوے روپے پچاس پیسے کی ریکارڈ حدکوعبورکرگیا۔

گلوبل ولیج کی اصطلاح جس نے بھی ایجاد کی تھی اس کی عقل کا جواب نہیں۔۔۔ کیونکہ اس فارمولے کے تحت کسی بھی ملک کو دنیا سے تجارت کرنے کیلئے کسی ایک کرنسی پر متفق ہونا ہی پڑتاہے۔۔۔ برسوں سے پاکستان اور دنیا کے بیشتر ممالک امریکی ڈالرکوباہمی لین دین کاذریعہ بنا رکھا ہے ۔۔۔ پاکستان بیرونی ممالک سے تجارت کیلئے ڈالر استعمال کرتا ہے۔۔۔اس لئے اسے ہر وقت اپنے پاس ڈالر کی ایک مخصوص مقدار رکھنا پڑتی ہے۔۔۔جسے عرف کام میں زرِمبادلہ کے ذخائر بھی کہاجاتا ہے۔۔۔زر مبادلہ کے ذخائراورحکومت کے پاس موجود سونے کی مقدار کے مقابلے میں ملکی کرنسی چھاپی جاتی ہے پھرکہیں جاکراس ملک کی کرنسی کی قیمت کا تعین ہوپاتاہے۔۔۔ بیرونی کرنسی یا ڈالرزبرآمدات اور بیرونی قرضوں کی شکل میں کسی بھی ملک کے زرمبادلہ کے ذخائرکا حصہ بنتے ہیں ۔۔۔جس ملک کی برآمدت اور درآمدات برابر ہوں وہاں مقامی کرنسی عموما مستحکم تصورکی جاتی ہے۔۔۔لیکن پاکستان کے موجودہ حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ انڈسٹری کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے اور درآمدات نہ ہونے کے برابر ہوگئی ہیں۔۔۔پاکستانی حکومت مقامی کرنسی چھاپ چھاپ کر کچھ عرصہ تو اپنی کرنسی کو مستحکم کرتی ہے لیکن یہی چال آگے چل کر الٹ جاتی ہے اور افراط زر کے باعث ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہوجاتی ہے ۔۔۔ پاکستان کے پاس اس وقت زرِمبادلہ کے مجموعی ذخائر تیرہ ارب اکیاسی کروڑ ڈالرہیں۔۔۔جبکہ اسے سالانہ درآمدات کی مد میں تین ارب ڈالر خرچ کرناپڑتے ہیں۔۔۔ ظاہرہے جب ملک میں کچھ بن ہی نہیں رہا تو ہر چیز باہر سے ہی آئے گی!۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ چائے کی پتی سے لے کر آلو اور پیاز تک باہر سے آرہاہے، توغیر ملکی قرضوں کی قسط وار ادائیگی ایک الگ ہی معاملہ ہے۔۔۔ ایسے میں زرمبادلہ کے ذخائرتیزی سے ختم ہورہے ہیں اور غریب کی جیب کو اجاڑتے جا رہے ہیں ۔۔۔ اب کیونکہ دنیا امید پر قائم ہے تو پاکستان کوبھی امید ہے کہ امریکہ ا سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقم جلد ریلیز کردے گا۔۔۔ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ سرکاری اداروں کونجکاری کی بلی چڑھا کر جو ڈالر اکٹھےہوں وہ اس معیشت کو کچھ عرصہ اور سہارا دے پائیں گے۔۔۔۔ایسے میں اگر مزید نوٹ چھاپے گئے تو روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت سو سے تجاوز کر جائے گی۔۔۔ ڈالراورروپے کا چکرسانپ سیڑھی کا ایسا کھیل بن چکا ہے جس میں جب دل چاہتا ہے ڈالر آگے بڑھتے روپے کو نگل کر اس کا حلیہ ہی نہیں بگاڑتا بلکہ عوام کو بھی بے حال کردیتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن