منموہن‘ شہباز ملاقات : وزیراعلیٰ کا بھارت پر کشمیر‘ سرکریک‘ سیاچن اور پانی کے مسائل حل کرنے پر زور …… بھارت سے کشمیری عوام کا استصواب کا حق تسلیم کرایا جائے

وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو لڑائی جھگڑے ختم کرکے ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے‘ دونوں ممالک کے عوام کا مستقبل امن سے وابستہ ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں میں سے کوئی ملک تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ گزشتہ روز نئی دہلی میں بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میاں شہباز شریف نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت خطے میں پائیدار اور مستقل امن کی خواہاں ہے اور ہم بھارت کے ساتھ تمام مسائل افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ دریں اثناء انہوں نے نئی دہلی میں ایک غیرملکی خبررساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کو کشمیر‘ سرکریک‘ سیاچن اور پانی جیسے مسائل حل کرکے پاکستان بھارت دشمنی کا سلسلہ ختم کرنا ہو گا۔ بھارت اور پاکستان کو ترقی کیلئے ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے۔ انہوں نے اپنے شاندار استقبال پر بھارتی قیادت کا شکریہ بھی ادا کیا جبکہ انہوں نے منموہن سنگھ سے ملاقات کے دوران وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کی جانب سے انہیں خیرسگالی کا پیغام بھی پہنچایا۔
اس وقت حکومت ہی نہیں‘ بعض اپوزیشن جماعتوں اور مختلف مکاتب زندگی کے لوگوں کی جانب سے بھی بھارت کے ساتھ امن اور دوستی کی یکطرفہ خواہش کا اظہار ہو رہا ہے جس کے جواب میں بھارت کی جانب سے ایسے ہی جذبے کے اظہار کے بجائے کشیدگی بڑھانے کا پیغام ملتا ہے۔ بھارت کے ساتھ دوستی کی خواہش کا سلسلہ مشرف کی جرنیلی آمریت سے شروع ہوا‘ جنہوں نے نئی دہلی کا دورہ کرکے اس وقت کے بھارتی وزیراعظم واجپائی سے ملاقات کی اور پھر واپس آکر چار نکاتی کشمیر فارمولا پیش کردیا ۔ اسکے باوجود بھارتی لیڈران کی جانب سے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کی ہٹ دھرمی میں کوئی نرمی پیدا نہ ہوئی۔ اسی دور میں پاکستان کی جانب سے بھارت کے ساتھ کمپوزٹ ڈائیلاگ کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا اور شٹل ڈپلومیسی کے تحت اس وقت کے وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری نے اپنے ہم منصب بھارتی وزیر خارجہ کے ساتھ سلسلۂ جنبانی جاری رکھا مگر اسی دوران احمدآباد میں مسلم کش فسادات اور مالیگائوں میں سمجھوتہ ایکسپریس کی مسلمانوں والی بوگی کو پٹرول چھڑک کر نذر آتش کرنے کے واقعات رونما ہوئے جن کے ذریعے پاکستان دشمنی پر مبنی بھارتی خبث باطن کا کھلم کھلا اظہار سامنے آیا۔ جب فروری 2008ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کامیاب ہو کر اقتدار میں آئی تو اس نے بھی مشرف حکومت کا شروع کردہ کمپوزٹ ڈائیلاک کا سلسلہ برقرار رکھا جس کے تحت مختلف سطحوں پر پاکستان بھارت مذاکرات شروع ہوئے اور جب نئی دہلی میں وزراء خارجہ کی سطح پر پاکستان بھارت مذاکرات جاری تھے جن میں دونوں ممالک کے مابین بنیادی تنازعات کے حل کی راہ ہموار ہوتی نظر آرہی تھی تو عین اس موقع پر ممبئی حملوں کا ڈرامہ رچا کر اور اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر بھارت نے نہ صرف وزراء خارجہ کے مذاکرات کی میز الٹا دی بلکہ اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اس سخت پیغام کے ساتھ زبردستی پاکستان واپس بھیج دیا کہ اب پاکستان کشمیر کو ہمیشہ کیلئے بھول جائے۔ بھارت کی پیدا کردہ اس انتہا درجے کی کشیدگی کے دوران ہی پہلے شرم الشیخ میں اور پھر سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر بھوٹان میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کی بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سے ون آن ون ملاقات ہوئی‘ ان دونوں ملاقاتوں میں بھارتی وزیراعظم پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ ہوئے مگر دونوں بار ملک واپس جاتے ہی انہیں بھارتی اپوزیشن کی سخت مزاحمت میں لینے کے دینے پڑ گئے چنانچہ وہ بھارتی لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام ایشوز پر مذاکرات کی پیشکش سے منحرف ہو گئے جبکہ بھارتی حکومت اور اپوزیشن لیڈران کی جانب سے کشیدگی کے ماحول کو گرمانے کیلئے پاکستان پر دراندازی کے الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی۔ اسی دوران لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ دہشت گردی کی واردات ہوئی تو بھارت نے اس کو جواز بنا کر پاکستان کے ساتھ اپنے ملک میں بھی کھیلنے سے انکار کر دیا جبکہ بھارت کے دورے پر جانیوالے کھلاڑیوں‘ فنکاروں اور دانشوروں کی تضحیک کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔ بھارت کی پیدا کردہ کشیدگی کا یہ سلسلہ گزشتہ سال دسمبر میں کنٹرول لائن پر بھارتی فوجیوں کی بلااشتعال فائرنگ کے جواب میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے چار بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے ردعمل میں انتہاء تک جا پہنچا جبکہ پیپلزپارٹی کی حکومت اس وقت بھارت کو ’’پسندیدہ ترین‘‘ قرار دینے کی تیاریاں مکمل کر چکی تھی مگر کنٹرول لائن کے واقعہ کو جواز بنا کر بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کا پہلے سے طے شدہ دورہ منسوخ کردیا اور بھارتی آرمی چیف کی جانب سے پاکستان کو باقاعدہ جنگ کی دھمکی دے دی گئی۔ بھارت کی جانب سے سرحدی کشیدگی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جبکہ ہمارے اقتدار کے ایوانوں میں حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود بھارت کے ساتھ دوستی کی خواہش نے دم نہیں توڑا بلکہ میاں نوازشریف کی زیر قیادت مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے تو اس خواہش میں نئی روح پھونک دی ہے۔ میاں نوازشریف نے خود 11؍ مئی کی رات انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد لوگوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ دوستی کی خواہش کا اعادہ کیا اور ساتھ ہی بغیر کسی باضابطہ دعوت کے ازخود بھارت جانے اور بھارتی وزیراعظم کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کرنے کا اعلان بھی کر دیا جس کے جواب میں بھارت کی جانب سے سوائے سرد مہری کے اظہار کے انہیں اور کچھ نہیں ملا جس کا عملی مظاہرہ امریکہ میں مقیم بھارتی لابی سے لے کر بھارتی وزیراعظم تک کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کی صورت میں میاں نوازشریف کے ستمبر اور اکتوبر کے امریکی دوروں کے دوران سامنے آیا۔ اسکے باوجود پاکستان کی خالق مسلم لیگ کے قائدین نے بھارت کے ساتھ دوستی کی خواہش کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا‘ البتہ اب اتنا ضرور ہوا ہے کہ بھارتی تلخ اور سرد مہری پر مبنی رویے کو بھانپ کر وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی پاکستان بھارت تعلقات کی سازگاری کے معاملہ میں کشمیر کو فوکس کرلیا ہے اور اقوام عالم کو باور کرایا جا رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر خطے میں قیام امن کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی۔ وزیراعظم نوازشریف نے تو دو ہفتے قبل مظفرآباد میں کشمیر اقتصادی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان بھارت تعلقات کے معاملہ میں کشمیر کو فلیش پوائنٹ بھی قرار دیا ۔ اگر بھارتی لیڈران اپنی عادت سے مجبور ہو کر پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو انتہاء تک نہ پہنچاتے تو موجودہ حکمرانوں نے بھی بھارت کو پسندیدہ ترین قرار دینے کی اپنے طور پر ٹھانی ہوئی تھی جبکہ بھارتی پیدا کردہ کشیدگی کے نتیجہ میں پاکستان کو بھارت کیلئے پسندیدہ ترین کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے فیصلے سے رجوع کرنا پڑا ۔
اب میاں شہباز شریف کے دورۂ بھارت کے موقع پر انکی جانب سے اس امر کے اظہار نے پاکستان کے مؤقف کو ضرور تقویت پہنچائی ہے کہ بھارت کو کشمیر‘ سرکریک‘ سیاچن اور پانی جیسے تنازعات حل کرکے پاکستان بھارت دشمنی کا سلسلہ ختم کرنا چاہیے۔ اگر پڑوسی ملک پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ امن و استحکام کے مراحل طے کرکے ملکی اور قومی ترقی کیلئے ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کر رہے ہوں تو اس سے زیادہ مثالی صورتحال اور کوئی نہیں ہو سکتی لیکن بھارت نے نہ آج تک کشمیر کا تنازعہ حل ہونے دیابلکہ  سیاچن پر بھارتی قبضے اور اسکی ہٹ دھرمی سے خطے کیلئے پیدا ہونیوالے خطرات پربھی  دنیا بھر کا میڈیا چیخ و پکار کر رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے ان تنازعات کو دانستاً حل نہ کرنے اور طول دینا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ اگر بھارت یو این قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کو استصواب کا حق دے کر اس مسئلہ کا کوئی قابل عمل حل نکال لیتا ہے تو ہمارا اس کے ساتھ اور کوئی تنازعہ نہیں ہے جس کے بعد علاقائی اور عالمی امن و استحکام کی ضمانت بھی فراہم ہو جائیگی۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے دورۂ بھارت کے موقع پر پاکستان بھارت تنازعات میں اصل ایشو کو اجاگر کرکے پاکستان کے اصولی مؤقف کی بھرپور وکالت کی ہے‘ تاہم اب انہیں ملک واپس آکر اپنے برادر بزرگ وزیراعظم پاکستان کو بھی اسی مؤقف کے اظہار کیلئے قائل کرنا چاہیے اور وفاقی سطح پر ٹھوس حکمت عملی طے کرانی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن