دسمبر کا دُکھ

دسمبر کا دُکھ

ہم اس شہر کے باسی ہیں جو ”بے حرف و صدا“ ہے۔ اس شہر کی عکاسی منیر نیازی نے کچھ اس طرح کی ہے
بدلتے موسم کی رات ہے
میدانوں میں اندھیرا ہے وہ سامنے اونچی کرسی کے مکانوں نیم روشنی میں دروازوں کے باہر کھڑے
لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں؟
سیاست کی؟محبت کی؟ جنگ کی؟
اشیائے صرف کی گرانی کی؟
گزرے ہوئے دنوں کی؟
آنے والے ماہ و سال کی کچھ پتہ نہیں چلتا
بس دور سے انکے ہونٹ ہلتے دکھائی دیتے ہیں
دسمبر کا مہینہ جہاں کُہرے اور سردی کے باعث رگوں میں خون منجمد کرتا ہے وہاں ہم سے بچھڑے ہوئے لوگوں کی یاد تازہ کرکے بچھڑے سال کے دکھوں میں اضافہ کر دیتا ہے۔ پروین شاکر اور منیر نیازی کو ہم سے بچھڑے کئی سال ہوئے لیکن ان کے اور سال کے بچھڑنے میں اگر کوئی بات مشترک ہے تو وہ اداسی ہے جو فضا کو سوگوار کر جاتی ہے۔ کوئی بھی تخلیق دکھ اور کرب کی انتہا تک پہنچ کر پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے۔ جیسا کہ سونا بھٹی میں تپ کر کندن ہو جاتا ہے۔ تخلیق کار کے اندر حساسیت اسکی قوت فکر اور قوت مشاہدہ کو جلا بخشتی ہے اور اس کی ذات میں غم دوراں، غم جاناں، غم روزگار، غم تنہائی اور نجانے کون کون سے غم آ سماتے ہیں۔ تب الفاظ جذبوں کی عکاسی کرنے لگتے ہیں بلاشبہ پروین شاکر جذبوں کی شاعرہ تھی۔
میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی
وہ شخص آ کے میرے شہر سے چلا بھی گیا
منیر نیازی کے ہاں مضمون تازہ کے ساتھ اسلوب بھی تازہ تھا۔ اہل ذوق کو یہ احساس ہوتا تھا کہ ایک پھول کا مضمون سو رنگ میں بھی باندھا جا سکتا ہے۔ ان کی تمثالیں گہرے اور پکے رنگ لئے ہوئے تھیں جو معاصر انسانی رویوں سے لے کر انسان کے ازلی اور ابدی تجربوں کا احاطہ کئے ہوئے تھیں۔
سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں
ان امتوں کا ذکر جو رستے میں مر گئیں
کر یاد ان دنوں کو کہ آباد تھی یہاں
گلیاں جو خاک و خون کی دہشت سے بھر گئیں
شاعر کا ادراک معاشرے کے باطن میں ہونیوالی تبدیلیوں کو پہچاننے میں فعال ثابت ہوتا ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر منیر نیازی نے جس شہر کو آباد کیا بقول ڈاکٹر سہیل احمد خاں ”اس شہر کے نواح میں پہنچتے ہی خاک کے رنگ بدلنے کا احساس ہونے لگتا ہے“
اس خاک میں کہیں کہیں سونے کا رنگ ہے
اس شہر کے یہیں کہیں ہونے کا رنگ ہے
میری منیر نیازی سے ملاقات ایک ادبی تقریب میں ہوئی وہ دل کو چھو لینے والی شاعری تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ گداز شخصیت کے مالک تھے۔
ماہ دسمبر گزرتے ہی جہاں یہ احساس سوگوار تاثر بن کر فضا میں پھیل جاتا ہے کہ جو وقت گزر گیا وہ لوٹ کر نہیں آئے گا وہاں یہ بھی احساس دلاتا ہے کہ جو ہم سے بچھڑ گئے وہ اپنے کمال سے اس فن کی بنیاد رکھ گئے جو ان کی یاد دلاتا رہے گا اور آنے والی نسلیں ہمیشہ ان کے فن کو خراج تحسین پیش کرتی رہیں گی اور ان لوگوں کی فنی عظمت کو کبھی زوال نہیں آسکتا۔
کوئی ملال بہت دیر تک نہیں رہتا
تیرا خیال بہت دیر تک نہیں رہتا
میں جانتا ہوں سورج ہوں ڈوب جاﺅں بھی تو
مجھے زوال بہت دیر تک نہیں رہتا

ای پیپر دی نیشن