تاریخ انسان کا احاطہ ترین قرآن کریم نے کمال معجزانہ اسلوب سے علم و تحقیق کی روشنی سے کیا ہے۔ مگر حیف ہے ہم مسلمانوں پر عبرت و موعظمت کے واقعات میں جب اپنی مستعدادزندگان میں پڑھتے ہی نہیں تو سبق کیا حاصل کرینگے۔ زمانہ ازل سے تاحال سرکش و خود سر اقوام جن کی سرکشی‘ احکامات الہٰی سے چشم پوشی و روگردانی اور ایناورسل کی نافرمانی و تضحیک اور اپتر رسانی سے جو عاد و ثمود کی طرح ان اقوام کی ویرانی میں بدل گئی اور دین و دنیا اور دونوں جہانوں کی رسوائی ان کا مقدر بن گئی حالانکہ آدمی و آدمیت کا مقصد تخلیق ہی یہ تھا کہ اس سے خلافت الٰہی کا کام لیاجائے اور اس کیلئے جن صلاحیتوں اور قوتوں کی ضرورت تھی وہ فرشتوں میں بھی موجود نہیں تھی۔ بقول علامہ اقبالؒ .... فرشتوں سے بہتر سے انسان ہونا
مگر بدقسمتی سے اسی انسان نے قہاری ‘ جباری و جبروت کا مرقع بن کر اور یہ صفات اپنانے کی کوشش کرتے ہوئے ابراہیمؑ کے سامنے شکل نمرود بن کر اور موسیٰؑ کے سامنے فرعون بن کر اور شداد و ہامان بن کر اور کبھی عاد و ثمود اور اصحاب الرسل کی شکل میں آ کر انسانیت و اخلاق کی قبا چاک کی حتیٰ کہ مسلمانوں کا قبلہ اول جو رحمتوں و برکتوں سے معمور ہے۔ یہود کی مفسدانہ سرگرمیوں اور احکام الٰہی کیخلاف مسلسل و پیغام بغاوتوں کی وجہ سے دو مرتبہ تباہی و بربادی سے سے دو چار ہو چکا ہے۔ ماضی قریب میں موجود بیت الحرام خانہ کعبہ بھی زد انسانی جو بشکل شیطانی قابض ہونے آیا تھا اور جس کی وجہ سے کئی دنوں تک طواف و مناسک رک گئے تھے جہاں ہزاروں فرشتوں کی آمد ہوتی ہے اور جہاں براہ راست رحمت الٰہی کا نزول ہوتا ہے‘ اسی رحمت کے صدقے دجال کا وبال ٹل گیا‘ مگر یہ سب کچھ پورس نے نہیں کیا تھا بلکہ خرناس بھرے دماغوں کی اختراع باطل تھی۔ ہمارا مقصد تمہید عقل وشعور سے بعید اس لئے نہیں کہ یہ تقاضہ فطرت نہیں بلکہ خالق نے دانستہ افراط و بہتات اصحاب لیار کی یعنی بائیں بازو والے راہ حق سے ہٹے ہوئے لوگوں کی ہوتی ہے۔ مگر وہاں اللہ کلمہ حق کہنے والے اصحاب کیف بھی تخلیق فرما دیتا ہے۔ جوسرکشوں کے آگے سرفروش بن کر بند باندھ دیتے ہیں۔ بتانے کا مقصد محض اتنا ہے کہ ابولہب و ابو جہل تو حضورکے دور میں بھی موجود تھے‘ دور حاضر میں انکی موجودگی سے خائف ہونے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ علم و فضل میں وہ بدبخت بھی کمال کو پہنچے ہوئے تھے تو علم پیمانہ پرکھ نہیں بلکہ عمل زاویہ نگاہ ہونا چاہئے اور اگر علم احکامات الیہہ سے متصادم ہو جائے کیونکہ حکم ربانی بلا تخصیص مذہب و ملت ہوتا ہے جہاں اس کی روگردانی اور وہ بھی دانستہ کر دی جائے‘ تو پھر ذلت و پسپائی‘ انفرادی اور اجتماعی طور پر مقدر بن جاتی ہے۔ یہ علت اوبامہ کے دور میں بڑی جونز پادری میں پائی جاتی ہے اور وہ ملعون ‘ بدبخت حیوان سرکاری سرپرستی میں پولیس کی حفاظت میں اللہ کی کتاب کو سرعام وسربازار نذرآتش کر دیتا ہے تو اس کا وبال صرف اسی دجال پہ ہی نہیں بلکہ غیر محسوس انداز میں پورے ملک میں پڑ چکا ہے۔ ہماری باتوں اور ایمان کو بے وزن سمجھنے والوں کیلئے یہ مثال کافی ہے کہ ڈنمارک کا وہ شخص جس نے معاذ اللہ توہین آمیز خاکے بنائے تھے‘ وہ تو تائب ہو کر اوراس سال حج کر کے حاجی بن چکا ہے۔ اقتصادی بحران کی وجہ اوبامہ و انتظامیہ اکتوبر کے بعد ہونیوالی قرض کی ادائیگیاں نہ ہونے کی وجہ سے اور سود کی شرح بھی تیزی سے بڑھنے کے خطرے کی وجہ سے غلطاں و پریشان ہے۔ کیونکہ اس طرح سے امریکہ سودی نظام میں الجھ کر رہ جائے گا‘ انتظامیہ کو تین ملین سو ڈالر یومیہ کا نقصان اسکے علاوہ ہے۔ بقول اقبالؒ ....
فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
مگر اس کی حرص و ہوس کا یہ عالم ہے کہ عراق افغانستان اور بلواسطہ پاکستان کے ساتھ متحارب ہو کر چھ ٹرلین سالانہ سے بھی زائد بے مقصد جنگ پر ضائع کر چکا ہے۔ جو کہ درجنوں ممالک کے سالانہ بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ خود دس فیصد امریکی بے روزگار بن چکے ہیں‘ لوگ نہ صرف بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے ہیں بلکہ گھروں کی اقساط نہ دینے کی استطاعت ہونے پر خیموں میں منتقل ہو گئے ہیں‘ زمینوں کی خرید و فروخت نہ ہونے کے برابر ہو گئی ہے گھر کرایوں پر نہیں چڑھتے‘ اور لوگوں نے اپنے بچوں کو پہلی دفعہ پرائیویٹ سکول سے اٹھا کر گورنمنٹ سکولوں میں داخل کرانا شروع کر دیا ہے۔ مگر اسکے لالچ کا یہ عالم ہے کہ وہ دنیا بھر تسلط جمانے اور ڈرون طیاروں پہ نت نئے تجربات کرکے اسے جدید ترین‘ بنانے پر خطیر رقم خرچ کر رہا ہے پاکستان اس کا واحد اتحادی ملک ہے جس کے شہریوں کو کبھی ڈرون حملوں سے اور بھی بلیک واٹر سے مسلکی و مذہبی منافرت کے نام پر خصوصاً کراچی‘ کوئٹہ اور پشاور میں روزانہ درجنوں بندے مار دیتا ہے۔ ہمیں خوشہ ہے کہ دنیا میں پہلا ایٹم بم گرانیوالا دنیا کو تباہ کرنے کیلئے آخری بم گرانے کی کوشش کریگا‘ مگر شاید اس سے قبل اس کا بغیر بنیادوں پر کھڑا اقتصادی ڈھانچہ زمیں بوں ہو جائے‘ یہ ہے امریکہ جس کی دوستی پہ عوام نہیں حکمران فخر انبساط محسوس کرتے ہیں اور پھولے نہیں سماتے۔ !!!
”اتحادی حملہ آور‘ اتحادی کمین گاہ
”اتحادی حملہ آور‘ اتحادی کمین گاہ
Dec 14, 2013