65 برس کے مُلا عبدالقادر کو بنگلہ دیش کی عدالت نے پھانسی دی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کہا جاتا ہے۔ خود جج صاحبان اس فیصلے پر تنقید کرتے ہیں۔ امریکی عدالت نے بے گناہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 85 برس کی قید سنائی۔ ساری دنیا میں اس سزا کو مضحکہ خیز قرار دیا گیا۔ عدالتوں کا نام بے انصافی کو فروغ دینا ہے؟ بنگلہ دیش کو بنے ہوئے 41 برس سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ مُلا صاحب دو دفعہ بنگلہ دیش کی قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ان کو ووٹ دینے والوں کو سزا دو۔ وزیراعظم حسینہ واجد نے ایک دفعہ جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا۔ تو وہ خود کو بھی سزا دیں۔ اُن کے والد بنگلہ بندھو (بابائے بنگلہ دیش) کو جن لوگوں نے اُن کے گھر میں داخل ہو کے قتل کیا۔ گھر کا بچہ بھی زندہ نہ چھوڑا۔ حسینہ واجد بچ گئی کہ وہ ملک میں نہ تھی۔ اُن میں سے کسی کو سزا نہ دی جا سکی۔ ان قاتلوں میں سب کے سب بنگلہ دیشی تھے۔ یہ بات شرمناک ہے اور قابل غور ہے کہ یہ پھانسی 16 دسمبر سے دو تین دن پہلے دی گئی ہے۔ پاکستان میں 16 دسمبر کو یاد کرنا ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کو بھٹو صاحب نے تسلیم کیا اور بھٹو صاحب نے ہی کہا تھا کہ پاکستان بچ گیا جب وہاں ملٹری ایکشن شروع کیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب صدر پاکستان جنرل یحیٰی خان کے ساتھ تھے۔ وزارت خارجہ کے انچارج تھے۔ آج ایسے ہی لوگ شمالی وزیرستان میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف ملٹری ایکشن کے حامی ہیں اپنے لوگ خفا ہو جائیں تو انہیں منایا جاتا ہے مارا نہیں جاتا۔
میں مشرقی پاکستان کے سقوط پر روتا رہا تھا۔ تو پھر مجھ پر بھی مقدمہ چلا۔ یاد رہے کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ بنگلہ دیش کے بننے پر روتا رہا۔ میں تو اس حوالے سے بڑا درد رکھتا ہوں۔ میرے خیال میں ہمارے اس حصے نے الگ ہی ہونا تھا تو صلح صفائی سے معاملہ کیا جاتا۔ علیحدگی کے بعد بھی اس خطے کا نام مشرقی پاکستان رہتا۔ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی۔ شمالی کوریا جنوبی کوریا۔ الگ الگ ملک ہیں۔ تو مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کیوں نہ ہو سکتے تھے۔ اس طرح برصغیر میں دو پاکستان ہوتے۔ حسینہ واجد ہوشیار رہیں کہ بھارت تو آج بھی بنگلہ دیش کو پاکستان سمجھتا ہے۔ میں تو بھٹو صاحب اور دوسرے لوگوں کے اس اقدام کے بھی خلاف ہوں کہ مغربی پاکستان کا نام پاکستان کیوں رکھا گیا۔ ہم خود مشرقی پاکستان کے لئے ایک الگ ریاست کا اعلان کرتے اور ہمارے برادرانہ تعلقات ہوتے۔ پچاس سے زیادہ مسلمان ملک دنیا میں ہیں۔ انہی ممالک کو متحد کرنے کی کوشش بھٹو صاحب اور شاہ فیصل نے کی تھی۔ یہ شاہ فیصل کی تجویز تھی کہ اسلامک سمٹ لاہور میں ہو۔ عالم اسلام کا لیڈر ملک تب پاکستان تھا۔ اب بھی ہو سکتا ہے۔ مسلمان سربراہان مملکت میں سے شیخ مجیب الرحمن کا نمائندہ بھی لاہور میں پہنچا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کو یہ مقدمہ چلانے کا خیال نہ آیا تھا جو اُس کی نادان بیٹی کے دل میں آیا ہے۔ اپنی حکومت کی دوسری باری میں یہ خیال آیا ہے۔ اب وہ تیسری باری لینا چاہتی ہے؟ شیخ صاحب پر بھی بھارت کا دباﺅ تھا۔ مگر حسینہ واجد اس دباﺅ تلے دب گئی ہے۔ یہ سب کچھ اس سے بھارت کروا رہا ہے۔ اس کھیل میں دوسری مسلمان دشمن طاقتیں بھی شریک تھیں۔ بنگلہ دیش کے لئے ایک مسلمان ملک کے طور پر ایک تاثر بنتا چلا جا رہا ہے۔ مُلا عبدالقادر کی پھانسی کے بعد یہ بات مزید زور پکڑ لے گی۔ مسلمانوں کو اسلام کی اصل روح تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ جہاں سب عقیدے اور نظریے کے لوگوں کو پوری آزادی سے زندگی بسر کرنے کی اجازت ہو۔ جہاں مساوات اور انصاف ہو۔
اگر بھارت اتنا ہی بنگلہ دیش کے حق میں تھا تو بھارتی بنگال کو بھی اس میں شامل کرتا۔ اس طرح یہ ایک بڑی بنگالی ریاست بن کے سامنے آتی۔ بھارت صرف پاکستان سے انتقام لینا چاہتا تھا۔ اندرا گاندھی نے ایسی بات کہی بھی تھی۔ جغرافیائی لحاظ سے مشرقی پاکستان بنایا ہی اس طرح گیا تھا کہ یہ الگ ہو جائے۔ اس میں ہمارے حکمران بننے کی خواہش والے سیاستدانوں جرنیلوں بالخصوص افسروں اور پاکستان میں بھارت کی لابی کے لوگوں نے بہت زور لگایا۔ وہ تو اب بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے زور لگا رہے ہیں۔ حالات ہی ایسے بنا دئیے گئے۔ مشرقی پاکستان کو کبھی پاکستان کا حصہ بننے ہی نہیں دیا گیا۔ پاکستان تو مشرقی پاکستانیوں نے بنایا ہے۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ تمام مشرقی پاکستانی اذیت اور ذلت میں مبتلا ہو کر پاکستان کے خلاف نہ تھے۔ اب بھی پاکستان کے خلاف نہیں ہیں یہ چند شرپسندوں اور باہر سے امداد دکھانے والوں کا کام تھا۔ کوئی یہ بتائے کہ مکتی باہنی میں کتنے لوگ تھے۔ انہیں امداد اور اسلحہ کہاں سے ملتا تھا اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ اگر بھارت کی فوجیں ڈھاکہ میں داخل نہ ہوتیں تو مشرقی پاکستان الگ نہ ہوتا۔ پاکستانی فوج پیشہ ورانہ مہارت اور جرات ایمانی سے مالامال ہے۔ وہ پاکستانیوں کے خلاف کارروائی میں ملوث نہیں ہے۔ ان لوگوں کے خلاف لڑ رہی تھی جو بھارت کے ایجنٹ تھے۔ بھارت کے ایجنٹ مغربی پاکستان یعنی پاکستان میں بھی ہیں۔ کیا بنگلہ دیش اب جنت بن گیا ہے۔ اب بھی عام غریب لوگوں کے لئے جہنم کا سماں ہے۔ بنگلہ دیش میں پاکستان کی یاد کو خوف بنایا جا رہا ہے۔ مشرقی پاکستان میں پاک فوج کا کوئی رابطہ مغربی پاکستان سے نہ تھا۔ سپلائی لائن موجود ہی نہ تھی۔
جب بنگلہ دیش بن گیا۔ فیصلہ ہو گیا تو اس کے بعد ہتھیار ڈالنے کی تقریب بھی کسی سازش کا حصہ تھی۔ جس میں پاک فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاک فوج دنیا کی بہترین فوجوں میں سے ہے۔ اور اس کا یہ اعزاز اب تک قائم ہے۔ ہم نے ایٹم بم سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بنایا تھا اور وہ بھی بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں تھا۔ پاکستان کے حکمران سیاستدان اور کچھ بھارتی لابی کے آدمی بھارت دوستی کے لئے امن کی آشا کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ میں بھارت کے ساتھ جنگ کے حق میں نہیں ہوں مگر دونوں ملکوں میں بنیادی مسائل تو حل ہو جائیں۔ جن میں کشمیر کا تنازعہ اور اب پانی کے معاملات گھمبیر صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ کشمیر کا معاملہ متنازعہ ہے جبکہ مشرقی پاکستان ایک غیر متنازعہ علاقہ تھا۔ قائداعظم کا وژن ملاحظہ کریں کہ انہوں نے کہا تھا۔ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔
بنگلہ دیش میں نئی خطرناک صورتحال کے سلسلے بھارت کے ساتھ جا کے ملتے ہیں۔ اس طرح بھارت اپنے لئے بھی مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ امن پاکستان کے لئے ضروری ہے مگر اس سے کہیں زیادہ خود بھارت کے لئے ضروری ہے پاکستان کئی ایسے لوگ ہیں جو پاکستان کے خلاف تھے اور مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود مرحوم نے کہا تھا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں ہیں۔ مفتی محمود اس کے باوجود صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ رہے اب ان کی جماعت قومی اسمبلی میں بھی ہے۔ مولانا فضل الرحمن قائد حزب اختلاف بھی رہے۔ سرحدی گاندھی کے بیٹے خان ولی خان بھی ممبر اسمبلی رہے مگر کسی کو اس حوالے سے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ تقسیم ہند کا معاملہ قائداعظم نے جمہوری انداز میں بڑے سلیقے سے انجام تک پہنچایا۔
بنگلہ دیش میں یہ سزائیں حکمرانوں کے لئے عبرتناک بن جائیں گی۔ جماعت اسلامی سے اختلاف ہونگے مگر وہاں جماعت اسلامی بنگلہ دیش ہے۔ مُلا صاحب کو یہ سزا ایک سنگین معاملہ ہے پاکستان کو اس کے لئے آواز اٹھانا چاہئے۔ اس کے لئے بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ کہہ کر خاموش بیٹھ جانا اچھا نہیں ہے۔ جب ایک انتقامی انتخابی سیاسی مفاداتی بہت پرانے اور ناجائز و عبرتناک معاملے میں سزا دیتے ہوئے پاکستان کا نام آ رہا ہے تو اس میں مصلحت اور بزدلی اختیار کرنا مناسب نہیں ہے۔ ویسے بھی کسی بے گناہ آدمی کے لئے اپیل تو کی جا سکتی ہے۔
میں اپنی بات مُلا عبدالقادر کی اس ولولہ انگیز بات پر ختم کرتا ہوں۔ ”مجھے شہادت کا شوق تھا مگر یہ مرتبہ مجھے بڑھاپے میں ملا ہے“۔ بوڑھے آدمی کو جان سے ماردینا بہت بڑی حماقت ہے۔ چند دنوں میں اس نے خود مر جانا ہوتا ہے۔
یہ رتبہ¿ بلند ملا جس کو مل گیا