لاہور (فرخ سعید خواجہ) لاہور مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے۔ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی کی 13میں سے 12اور صوبائی اسمبلی کی 25میں سے 22نشستوں کی فاتح ہے جبکہ تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ اسکے باوجود تحریک انصاف لاہور کو اپنا قلعہ قرار دیتی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ (ن) دھاندلی سے لاہور میں بھی الیکشن جیتی۔ تحریک انصاف فیصل آباد میں 8اور کراچی میں 12دسمبر کو محض کال پر دکانیں اور ٹرانسپورٹ بند کروانے میں ناکام رہی ہے البتہ دھرنے اور ٹائر جلاکر دکانیں، ٹرانسپورٹ بند کروانے میں بہت حد تک کامیاب رہی۔ اب تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان کل سوموار 15دسمبر کو لاہور میں میچ پڑنے والا ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہو گی کہ ٹرانسپورٹر اور تاجر تحریک انصاف کی کال پر اپنا کاروبار بند رکھتے ہیں یا امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے، دھرنے کے باعث ٹریفک میں خلل پڑنے کے بعد کاروبار بند کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ اور لاہور پولیس پچھلے چند ماہ میں ٹرانسپوٹروں، تاجروں اور عوام کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔ مظاہرین کی تعداد مٹھی بھر ہو یا سینکڑوں میں انتظامیہ اور پولیس کا کردار تماشائی کا دکھائی دیتا ہے یا پھر پولیس جون 2014ءجیسا سانحہ ماڈل ٹاﺅن برپا کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ ماضی میں انتظامیہ کے افسر اور پولیس حکام احتجاج کرنے والوں کو مذاکرات کے ذریعے ایک حد میں رہ کر احتجاج کرنے کا پابند بنایا کرتے تھے بصورت دیگر لاٹھی چارج اور گرفتاریاں ہوا کرتی تھیں لیکن مشاہدے میں آیا ہے کہ اب یہ طریقہ کار ختم کر دیا گیا ہے۔ 15دسمبر کے احتجاج کو پُرامن رکھنے کیلئے ہائی کورٹ نے گیند حکومت کی کورٹ میں پھینک دی ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس سمیت تاجروں، ٹرانسپوٹروں اور تحریک انصاف سے مذاکرات کرکے احتجاج کو پرامن بنانے کا اہتمام کریں۔ حکومتی جماعت نے اپنے عہدیداران و کارکنوں کو سختی سے کہہ دیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں 15دسمبر کو سڑکوں پر مت آئیں اب دیکھنا ہو گا کہ حکومت احتجاج کرنے والوں کو فری ہینڈ دیتی ہے یا خلاف قانون سرگرمیوں میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائیگا۔ 15دسمبر انتظامیہ اور تحریک انطاف کی لیڈر شپ کا امتحان ہو گا کہ امن سے یہ دن گزارا جا سکے۔
فرخ سعید خواجہ