نئی دہلی (بی بی سی ذرائع) آج کل بھارت میں بی جے پی اور اسکی ہمنوا مختلف تنظیموں کی طرف سے تقریباً روزانہ متنازع بیانات آرہے ہیں اور پورے ملک میں بحث چھڑی ہوئی ہے اور بھارتی پارلیمنٹ میں بھی روزانہ ہنگامے ہورہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی ہندو نواز تنظیمیں پوری شدت کے ساتھ حرکت میں آگئی ہیں۔ ہر کوئی ایکدوسرے سے آگے نکل جانا چاہتا ہے۔ کچھ دنوں پہلے مودی کابینہ کی ایک وزیر نے بی جے پی کے علاوہ باقی جماعتوں کا ساتھ دینے والوں کو ناجائز اولاد قرار دیا تھا۔ ایک رکن نے پارلیمنٹ میں کہا کہ جوہری دھماکہ بھارت میں سادھوؤں نے تو کئی کروڑ سال پہلے ہی کردیا تھا۔ چند دنوں قبل وزیر خارجہ سشما سوراج کے اس بیان پر پارلیمنٹ میں خاصہ ہنگامہ رہا کہ ہندوؤں کی مقدس کتاب بھگوت گیتا کو ’قومی کتاب‘ قرار دیا جائے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے ایک جج نے کہا تھا کہ اگر انکے اختیار میں ہوتا تو وہ گیتا کو سکولی نصاب میں لازمی کردیتے۔ واضح رہے گذشتہ ماہ وزیر تعلیم نے سنسکرت زبان کو سکولوں میں لازمی قراد دیا ہے۔ ابھی یہ بحث چل ہی رہی تھی کہ آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے ذریعے آگرہ میں آباد 200 غریب بنگالی مسلمانوں کو ہندو بنانے کا تنازع سامنے آیا۔ مسلمانوں نے یہ الزام لگایا کہ انہیں دھوکے میں رکھ کر مذہب تبدیل کیا گیا اور وہ تشدد کے خوف سے کچھ بول نہ سکے۔ اس دوران بی جے پی اور آر ایس ایس کے بعض سخت گیر عناصر نے 25 دسبمر کو عیسائیوں کے سب سے بڑے تہوار کرسمس کے روز علی گڑھ میں ہزاروں عیسائیوں اور مسلمانوں کو ہندو بنانے کے ایک بڑے پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندو تنظیموں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوؤں کی زمین پر قائم کی گئی تھی اور اس پر دوبارہ ہندوؤں کا غلبہ قائم کیا جائیگا۔ آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنطیم کی طرف سے علی گڑھ میں جو پمفلٹ تقسیم کیے گئے ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ مسلمان اور عیسائی ملک کیلئے ایک مسئلہ ہیں۔ کچھ دنوں پہلے اترپردیش بی جے پی کے صدر نے کہا کہ تاج محل مقبرہ نہیں بلکہ یہ ’تیجو مہالیہ‘ مندر ہے۔ اتر پردیش کے گورنر نے مودی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ایودھیا میں منہدم بابری مسجد کے متنازع مقام پر جلد از جلد رام مندر تعمیر کرائے۔ بھارت میں روزانہ اس طرح کے تنازعے اور بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ مودی حکومت بار بار اس بات کا اعادہ کر رہی ہے کہ وہ ملک کے سیکولرآئین اور جمہوری اصولوں کے تحفظ کی پابند ہے لیکن ساتھ ہی وہ اپنی محاذی تنظیموں کا دفاع بھی کر رہی ہے۔ دریں اثناء بی بی سی کی ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے شہر آگرہ میں چاہے جتنی سیاست ہو رہی ہو جن مسلمانوں کی زبردستی ہندو بنایا گیا وہ آج بھی خود کو مسلمان ہی مانتے ہیں۔ مذہب تبدیل کرنے والے لوگوں میں سے ایک رمضان شیخ کہتے ہیں کی انھیں ہندو نہیں ’بیوقوف‘ بنایا گیا۔ وید نگر بستی کی منیرا بیگم کا کہنا ہے کہ راشن کارڈ، بی پی ایل کارڈ اور دیگر سہولیات دینے کے نام پر کچھ ہندو رہنماؤں نے یہ کہہ کر انھیں ایک تقریب میں بلایا کہ اسی میں ان کو سب کچھ ملے گا۔ منیرا بتاتی ہیں کہ اسی بات پر لوگ اس میں شامل بھی ہوئے اور وہ سب کچھ کیا جو ان سے کہا گیا۔ ’مثلاً ماتھے پر تلک لگوایا اور آگ میں گھی بھی ڈالا۔‘ رمضان شیخ کہتے ہیں ’جاتے جاتے ان لیڈروں نے کہا کہ اب تم ہندو ہو گئے ہو۔ انہوں نے ہمارے لیڈر کے ہاتھ میں ایک مورتی دیکر اسکی تصویر بھی لی۔ پھر وہ چلے گئے۔ وہ مورتی تو ہم نے پاس ہی کے نائی کے گھر ہی رکھوا دی۔‘ رمضان کہتے ہیں کہ وہ سب اب بھی مسلمان ہیں اور اپنے مذہب کے پابند ہیں۔ ’ہم سب کو بیوقوف بنایا گیا ہے۔‘ ویدنگر کی بستی میں جو پروگرام ہوا تھا اسے منعقد کرنے والی تنظیموں میں سے ایک شیوسینا کے مطابق ویدنگر کی بستی میں رہنے والے لوگ بنگلہ دیشی ہیں۔ شیو سینا کے ویدو لوانیا کا کہنا ہے ’یہ لوگ اتنے سالوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ مگر ان کے پاس ان کا کوئی شناختی کارڈ نہیں۔ ہماری تنظیم کے لوگ ان کی مدد ہی کرنے گئے تھے۔ جبراً تبدیلی مذہب کے لیے نہیں۔‘مگر مسلم لیگ کے سلیم خان کہتے ہیں کہ پروگرام منعقد کرانے والے ادارے اسی بات کا حوالہ دے کر بستی کے لوگوں کو دھمکانے کا کام کر رہے ہیں۔ سلیم کہتے ہیں ’وہ سب بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی ہونے کی بات کہہ کر ڈراتے ہیں اور بلیک میل کرتے ہیں۔‘ مقامی انتظامیہ بستی کے لوگوں کا اعتماد بحال کرانے کی کوشش کر رہی ہے مگر ویدنگر کی جھوپڑیوں میں رہنے والے ڈرے ہوئے ہیں۔