میں داتا صاحب کے لئے کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر ہمت نہیں پڑتی۔ نوائے وقت کی کالم نگار طیبہ ضیا نے اپنے ایک کالم میں ایک امریکی پروفیسر کے حوالے سے لکھا ہے ’’اگر آج علی ہجویری ہوتے تو انتہا پسندی کا وجود نہ ہوتا۔‘‘ یہ ایسا ایک جملہ ہے کہ جس کے حوالے سے پورا کالم لکھا جا سکتا ہے مگر میں ذرا مختلف طریقے سے اپنے انداز میں بات کرنا چاہتا ہوں۔
داتا صاحب نے فرمایا کہ لاہور شہروں کا سردار ہے۔ یہاں کی گئی سچی اور بڑی بات پورے جہان میں مشہور ہو جاتی ہے مگر میں نے سوچا کہ داتا صاحب باہر سے لاہور تشریف لائے تھے اور لاہور نگری داتا کی نگری بن گئی۔ عجب راز ہے کہ وہی آدمی معروف ہوئے محبوب ہوئے، معرکہ آرائی میں یکتا ہوئے جو لاہور میں باہر سے آئے تھے اور یہاں کے ہو کے رہ گئے۔ اُن کی قبریں بھی یہیں ہیں۔ لاہور میں شاید ایک بھی آدمی ایسا نہیں ہے جو یہاں کا ہو اور جو داتا دربار کا ہو کے رہ گیا ہو۔ میرے ذہن میں کوئی ایسا نام نہیں ہے۔ میں تاریخ اور تحقیق کا آدمی نہیں ہوں۔ میرے ذہن مین شاہ حسین کا نام ہے اور احمد علی لاہوری مگر اُن کے لئے بھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آج شاہ حسین اور احمد علی لاہوری کی قبریں زندہ ہیں۔ ان کے لئے پھر کبھی میں کچھ لکھوں گا۔
سب سے بڑا نام میرے دل میں علامہ محمد اقبال کا ہے اور وہ سیالکوٹ سے تشریف لائے مگر اقبال لاہوری کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں۔ سیالکوٹ سے فیض احمد فیض بھی آئے تھے۔ دونوں لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔ علامہ اقبال کا مزار مشہور شاہی مسجد کے پہلو میں ہے۔
طیبہ ضیا نے کالم کے آغاز میں اشفاق احمد کے حوالے سے بابوں کا ذکر کیا ہے۔ اشفاق احمد خود ایک بابا تھے۔ بابا تو انسان کے اندر ہوتا ہے مگر وہ ملتا کسی کسی کو ہے۔ اس کی تلاش کے سفر میں من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانا بھی ضروری ہے مگر بابوں کی قلبی اور روحانی مدد کی ضرورت بھی ہے۔ کبھی کبھی روحانیت اور رومانیت اس طرح آپس میں ملتی ہیں کہ فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں نے شاعری کے ایک بہت بڑے بابے اپنے قبیلے کے سردار منیر نیازی کی تخلیقی کائنات کے بارے میں کہا تھا کہ اُن کے ہاں روحانیت اور رومانیت رل مل گئی ہیں۔ یہ شعر نجانے کس کے لئے منیر نیازی نے کہا تھا میں نے اُن سے کہا کہ یہ شعر خود ان کے بارے میں ہے۔ انہوں نے میری طرف اپنی ذاتی حیرت کے ساتھ دیکھا اور خاموش رہے۔ اُن آنکھوں نے جو کچھ کہہ دیا وہ میںنہیں کہہ سکتا ؎
کل دیکھا اک آدمی اٹا سفر کی دھول میں
گم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں
میں ان دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں تھا۔ نیو ہوسٹل ایک سانولی سوہنی شام کو منیر نیازی آئے۔ مجھے آواز دے کر بلایا اور کہا کہ آ ذرا ہجویری سے مل آئیں۔ میں نے دم بخودگی کے عالم میں انہیں دیکھا کیا بے تکلفی کا مظاہرہ ہے۔ اس کا تعلق کسی ان دیکھے تعلق سے ہے۔ میں اُن کے ساتھ ہو لیا۔ وہ داتا دربار پہنچے۔ ان کے لئے قبر تک فاصلہ نہ رہنے دیا گیا، میں بھی پیچھے پیچھے تھا۔ انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور صرف ایک جملہ کہا ’’اے اللہ حضرت محمد الرسول اللہ ؐ کے صدقے ہجویری صاحب، اجمل نیازی اور مجھ پر رحم فرما‘‘ اور باہر آ گئے۔ میں دیر تک حیرانی کی فراوانی میں ہچکولے کھاتا رہا کہ یہ کیا معاملہ ہوا۔ ہر شخص کا اپنا اپنا کوئی خاص تعلق داتا صاحب کے ساتھ ہے۔ میں بہت زیادہ منیر نیازی کے قریب قریب رہا۔ وہ ایک بابا تھا ورنہ ایسی شاعری کیسے کر پاتا ؎
وہ قیامتیں جو گزر گئیں
تھیں امانتیں کئی سال کی
طیبہ ضیا کبھی لاہور آئیں تو بابا محمد یحیٰی خان سے ضرور ملیں۔ میں انہیں روحانی آوارہ گرد کہتا ہوں۔ انہوں نے پوری دنیا میں کوئی قابل ذکر قبر نہیں چھوڑی جہاں حاضری نہ دی ہو۔ وہ حاضری اور حضوری میں فرق نہیں کرتے۔ جس ملک میں ہوتے ہیں مجھے فون ضرور کرتے ہیں۔ وہ عاجزی کے آسمان ولایت پر براجمان ہیں۔ وہ اشفاق احمد کی اہلیہ محترمہ بانو قدسیہ (بانو آپا) کو بابا کہتے ہیں۔ بانو آپا حیرت انگیز خاتون ہیں۔ ان کے لئے ممتاز مفتی نے لکھا تھا کہ ’’وہ اندر سے قدیم ہے باہر سے جدید ہے۔‘‘ ہر عورت کو اس جملے کی تصویر ہونا چاہئے۔ ایک بار میں نے اپنے کالم کا عنوان بنایا تھا ’’میرے شہر کی خوبصورت لڑکیو! ایک بار بانو آپا سے ضرور ملو۔‘‘ میں جب بھی ان سے ملا تو میرے اندر کی لڑکی مجھ پر حاوی ہو جاتی ہے۔
میں بابا محمد یحیٰی خان کا ذکر کرنے والا تھا اور درمیان میں کئی بابے آ گئے۔ بابا ایک زمانے میں ہر جمعرات کو داتا دربار پر نیاز تقسیم کرتے تھے۔ اپنے ہاتھ سے لوگوں میں بانٹتے تھے۔ نیاز خیرات سے بڑی چیز ہے۔ نیاز میں نیاز مندی ہے اور نیاز مندی میں بے نیازی بھی ہوتی ہے۔ اس کیفیت کو جاننے کے لئے چھوٹا موٹا بابا ہونا ضروری ہے۔ بابا یحیٰی خان داتا صاحب کی حاضری کے بعد اپنے گھر کے سامنے اکٹھے ہو جانے والے خواجہ سرائوں میں بھی نیاز تقسیم کرتے ہیں۔
ہمارے دور کے ایک پڑھے لکھے جدید تعلیم یافتہ روحانی دانشور واصف علی واصف کے گہری اور انوکھی معنویت سے لبریز جملوں نے ایک فضا بنا دی تھی۔ انہوں نے مجھے داتا دربار پر کبھی کبھی حاضر ہونے کی تلقین کی اور کشف المحجوب پڑھنے کی ہدایت کی اور میں یہ کتاب پہلے ہی پڑھ چکا تھا مگر پھر ایک بار پڑھی۔ آخر میں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ اپنی پہلی جلاوطنی کے بعد بے نظیر بھٹو پاکستان آئیں تو لاہور ائر پورٹ سے سیدھی داتا دربار پر حاضر ہوئیں۔ میں اُن کے بہت بڑے قافلے میں شامل تھا۔ وہ لاہور آتیں اور داتا دربار حاضر ہوتیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ وزیراعظم ہوتیں۔ داتا دربار اور سرکار دربار میں بڑا فرق ہے۔ داتا دربار پر حاضری دینے والے قلندر بھی ہوتے ہیں۔
داتا دربار کے اسرار اور انوار
Dec 14, 2014