جیل میں گزرے 19 سال کون لوٹائیگا: فاروق احمد خان

نئی  دہلی (بی بی سی) بھارت میں نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق بھارتی جیلوں میں گنجائش سے کافی زیادہ قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔ان میں ایسے قیدی بھی شامل ہیں جو مقبوضہ کشمیر میں دہشتگرد ہونے کے شک میں پکڑے گئے لیکن بعد میں بے قصور ثابت ہوئے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ہدواڑہ علاقے کے رہائشی 34 سالہ عمران کرمانی کو 2006 میں دہلی پولیس کے ایک خصوصی سیل نے منگول پوری کے علاقے سے گرفتار کیا تھا۔عمران پر الزام تھا کہ وہ دہلی میں خودکش حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے مگر پونے پانچ سال بعد عدالت نے انھیں تمام الزامات سے بری کر دیا۔ عمران نے جے پور سے ایئر کرافٹ مکینیل انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے اور جب انہیں دہلی میں گرفتار کیا گیا تو وہ ایک نجی کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے۔جیل میں گزرے پانچ سالوں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’بری تو عدالت نے کر دیا لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ میرے پانچ سال جو جیل میں گزر گئے انہیں کون واپس کرے گا؟‘عمران کو اس بات کا بھی کافی صدمہ ہے کہ جس وقت وہ اپنا مستقبل بنانے نکلے تھے، اس وقت انھیں جیل میں ڈال دیا گیا اور وہ بھی بغیر کسی قصور کے۔وہ کہتے ہیں، ’جو میرے ساتھ پڑھائی کرتے تھے، کام کرتے تھے وہ آج بہت ترقی کر چکے ہیں۔ میں بھی کرتا لیکن میرا قیمتی وقت جیل میں ہی برباد ہو گیا۔‘عمران اب اپنے گاؤں میں ایک سکول میں پڑھاتے ہیں۔ انہیں حکومت سے کسی مدد کی امید نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کے لیے حکومت کے پاس جانے کو تیار ہیں۔دہلی میں ہی دھماکے کرنے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد 19 سال تک قید رہنے والے انجینیئر فاروق احمد خان کو بھی حال ہی میں عدالت نے تمام الزامات سے بری کیا ہے۔ اننتناگ کے رہنے والے فاروق کو سپیشل ٹاسک فورس نے 23 مئی 1996 کو ان کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔ گرفتاری کے وقت 30 سالہ فاروق پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ محکمے میں جونیئر انجینیئر کے عہدے پر کام کرتے تھے۔دہلی ہائی کورٹ نے چار سال بعد انہیں لاجپت نگر دھماکے کیس سے بری کر دیا تھا لیکن اس کے بعد انہیں جے پور اور گجرات میں ہونے والے بم دھماکوں کے معاملے میں جے پور سینٹرل جیل میں رکھا گیا۔تاہم پھر جے پور کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کورٹ نے بھی انہیں رہا کرنے کا حکم دیا اور ان کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو خارج کر دیا۔زندگی کے 20 سال کھونے کے علاوہ فاروق کو اپنے مقدمے کے اخراجات کے طور پر ایک بڑی رقم بھی گنوانی پڑی۔ ان کا کہنا ہے کہ دہلی میں مقدمے کے اخراجات پر 20 لاکھ روپے لگے جبکہ جے پور میں 12 لاکھ روپے کا خرچ اٹھانا پڑا۔ وہ کہتے ہیں کہ 2000 میں جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو ان کو پیرول پر بھی نہیں چھوڑا گیا۔ فاروق کی والدہ کہتی ہیں، ’جس دن فاروق کے ابا نے بیٹے کی جیل کی تصویر دیکھی تھی تو انہیں دل کا دورہ پڑا اور ان کی موت ہو گئی۔ اب بیٹا تو گھر آ گیا لیکن اس کے کھوئے ہوئے 19 سال کون لوٹائیگا۔‘ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے لال بازار کے رہنے والے مقبول شاہ 2010 میں 14 سال بعد جیل سے رہا ہوئے تو انہیں لگا کہ انھیں ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...