اتوار ‘ 21 صفرالمظفر 1436ھ14 دسمبر 2014ئ

نواز شریف کو بھیجنے کیلئے امپائر یا ریڈ کارڈ کی ضرورت ہے : مشرف! 

اسے کہتے ہیں رسی جل گئی پر بَل نہیں گیا: موصوف کے دل و دماغ میں ابھی تک ریڈ کارڈ اور تھرڈ امپائر کا خناس سمایا ہوا ہے حالانکہ وہ خود ولن والا یہ کردار چند برس قبل بخوبی ادا کر چکے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ ریڈ کارڈ اور تھرڈ اپمائر کا انجام بالآخر کیا ہوتا ہے۔ ایوب، یحیٰی، ضیاءاور خود مشرف کا کیا حال ہوا اس کے باوجود اب مشرف کسی اور کا بھی یہی حال کرانے کے چکر میں نظر آتے ہیں۔
خود اپنا یہ حال ہے موصوف پنجرے میں بند پنچھی کی طرح پھڑپھڑا رہے ہیں، باہر آنے کا ان میں دم نہیں ہے کہ عدالتیں دروازے پر ان کی منتظر ہیں کب حضرت قدم باہر نکالیں اور وہ ان سے ایک ایک مقدمے کا حساب لیں۔ کئی بے تاب لوگ تو ....
جیا بے قرار ہے آئی بہار ہے
آ جا مورے بالما تیرا انتظار ہے
والا روایتی گانا گنگنا کر اپنے جذبات کا والہانہ اظہار بھی کر رہے ہیں مگر حضرت باہر آنے کی بجائے اندر رہنے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔ نیرنگی سیاست بھی دیکھئے اب وردی اتارنے کے بعد اسی ملک پر جمہوری عمل کے ذریعے اپنا تسلط جمانے کی کوشش موصوف کر رہے ہیں اسی ملک میں قائم ایک جمہوری حکومت کو چلتا کرنے کے لئے وہ ایک بار پھر غیر جمہوری اقدامات اور طاقتوں کی مدد چاہتے ہیں۔ بس اتنی سی بات سے ہی ان کی جمہوریت اور ملک سے محبت کھل کر عوام پر آشکار ہو رہی ہے کہ مشرف کتنے بڑے جمہوریت پسند ہیں۔ اب ان کی قوالی میں شامل باجا حضرات چاہے تالیاں بجائیں یا گلا پھاڑ پھاڑ کر تال سے تال ملائیں ان کی جمہوریت پسندی خود ہی کھل کر سب پر آشکار ہوتی نظر آتی ہے۔ لگتا ہے اب انہیں بھی خواب میں تھرڈ امپائر یا ریڈ کارڈ ہی نظر آتے ہیں۔ خدا ان دونوں سے ہمارے ملک کو بچائے۔
٭....٭....٭....٭
بنا گولی چلائے شہر بند کرنے کا کریڈٹ صرف تحریک انصاف کو جاتا ہے : شیخ رشید!
بے شک جو بات بھی شیخ جی کرتے ہیں لاجواب کرتے ہیں چاہے اس کا تعلق حقیقت سے ہو یا نہ ہو۔ اب جھوٹ اور سچ تو سیاستدانوں کے لئے یکساں چکے ہیں۔ بڑی سے بڑی جھوٹ پکڑنے کی مشین بھی ہمارے سیاستدانوں کے جھوٹ نہیں پکڑ سکتی کیونکہ یہ بے چارے جھوٹ بھی سچ سمجھ کر ہی بولتے ہیں۔ گزشتہ روز کراچی کیسے بند ہوا وہ سب کے سامنے ہے اور ہمیں اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ کیمرے کی آنکھ سب سے بڑی ناقد ہے اور پھر کراچی صرف چند بڑی سڑکوں کا ہی نام تو نہیں ہے۔
بس شیخ جی سے یہ ضرور پوچھنا ہے کہ کیا کراچی صرف چند سڑکیں ہی ہیں اور کیا ایم کیو ایم کی مرضی کے بنا اتنا بڑا کھیل کراچی میں کھیلا جا سکتا ہے۔ ذرا اس سچ سے بھی تو پردہ اٹھائیں وہ کہتے ہیں ناں ....
پردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھاﺅ
پردہ جو اُٹھ گیا تو بھید کُھل جائے گا
الطاف بھائی نے بھی ایک مرتبہ ترنم سے یہی بات کی تھی اور سارا کراچی اس پر جھوم اُٹھا تھا۔ اب کراچی میں تحریک انصاف کس کو چیلنج کر رہی ہے۔ یہ سب تو پردہ اخفا میں ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) کو کر رہی ہے تو بھیا اس بے چاری کی قسمت میں سندھ یا کراچی کا تخت و تاج اب لکھا ہی نہیں عرصہ ہوا سندھ کا تخت و تاج اس سے چھینا جا چکا ہے۔ اب سندھ کا تاج پیپلز پارٹی اور کراچی کا تخت ایم کیو ایم کے پاس مستقل طور پر آ چکا ہے۔ کراچی میں بیٹھ کر نواز حکومت کو للکارنا بے نقطہ سُننا چہ معنی دارد۔
اگر شیخ صاحب کو کراچی اور سندھ میں اپنی مقبولیت پر اتنا ہی گھمنڈ ہے تو کھل کر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سے سوال کرتے کہ ان کی مسلسل حکمرانی کے باوجود سندھ اور کراچی کی یہ حالت کیوں ہے کہ دیکھنے والوں کی آنکھ خود بخود بھر آتی ہے اور ذہن میں سو طرح کے سوالات گونجنے لگتے ہیں جس طرح شیخ رشید کے اپنے حلقے راولپنڈی کی حالت دیکھ کر سوالات اٹھتے ہیں کہ یہاں کے ترقیاتی فنڈز کہاں گئے۔ کیا ایسا سوال کر سکتا ہے کوئی، اتنی ہمت ہے شیخ جی آپ میں، کسی اور میں۔
٭....٭....٭....٭
استاد نے ٹیسٹ یاد نہ کرنے پر 40 بچے گنجے کر دئیے!
چلیں جی انہوں نے مار نہیں پیار کا سارا فلسفہ ہی اُلٹ دیا پاک بھارت مذاکرات کی میز کی طرح۔ اب کوئی اس استاد سے پوچھے کہ جناب بچے تو ٹیسٹ میں ہی فیل ہو گئے تھے امتحان میں تو نہیں۔ اب آپ کو یہ کس لقمان حکیم نے مشورہ دیا تھا کہ سر گنجا کرانے سے اس میں علم داخل ہو سکتا ہے یا آپ نے اپنی دانائی سے یہ راز دریافت کر لیا ہے کہ گنجے سر میں زیادہ علم ہوتا ہے۔ ایک پسماندہ علاقے میں جہاں پہلے ہی لوگ تعلیم کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے، پڑھنے کی بجائے بچوں کو کام پر لگا دیا جاتا ہے کہ وہ چار پیسے کما کر ماں باپ کا ہاتھ بٹائیں۔ اگر کسی سکول میں اتنے بچے آ ہی گئے ہیں تو خدارا انہیں پڑھنے دیں۔ اس قسم کی وحشیانہ سزائیں نفسیاتی طور پر انہیں تعلیم سے دور کر دیتی ہیں۔
آپ کا بھی سر اگر حکومت کی حکم عدولی پر منڈوا دیا جائے تو آپ کیا محسوس کریں گے۔ آپ نے بھی تو حکومت کا دیا ہوا سبق بھلا دیا ہے کہ سرکاری سکولوں میں مار نہیں پیار پر عمل ہو گا۔ شاید آپ یہ بھی بھول گئے کہ آپ ایک سرکاری سکول کے استاد ہیں۔ اگر آپ بچوں کے سر گنجے کرانے کی بجائے پیار و محبت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر انہیں سمجھاتے تو 25 یا 30 بچے ضرور آپ کے دستِ شفقت کے لمس سے متاثر ہو کر اگلے روز ٹیسٹ یاد کر کے آتے۔ مگر آپ نے بھی گِھن اور گیہوں دونوں کو پیس ڈالا۔
ہماری تو ساری قوم اپنا سبق بھول چکی ہے، اب کیا کوئی ان کے بھی سر منڈوا سکتا ہے اس بھولنے پر، تو پھر بچوں کو رگیدنا کیسا۔ انہیں مار نہیں پیار سے سیدھا کیا جا سکتا ہے ذرا کوشش کر کے تو دیکھیں۔ اب یہ مار اور ڈنڈے والا فلفسہ ساری دنیا ترک کر چکی ہے آپ بھی چھوڑیں ورنہ اگر مار سے کچھ ہوتا تو دنیا بھر کے نہ سہی کم از کم پاکستان کے تمام گدھے انسان بن چکے ہوتے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...