حویلیاں میں پی آئی اے کے طیارہ کو حادثہ پیش آنے سے پوری قوم سوگوار ہے۔ چترال ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ سردیوں میں چھ ماہ سے رابطہ منقطع رہنے اور سفری مشکلات کیلئے ہمیشہ سے شہرت کا حامل علاقہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ چترال اور پشاور کے درمیان متروک فوکر طیاروں کو سخت ناموافق موسمی حالات اور دشوار ترین روٹ پر طویل عرصے تک کوئی حادثہ پیش نہ آیا۔ ملتان میں فوکر طیارے کے حادثے کے بعد فوکر پروازوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔ ایک فوکر طیارہ چترال ایئر پورٹ پر پھسل کر چترال ہی کا ہو کر رہ گیا جس سے آج بھی فوکر طیاروں کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ فوکر طیاروں سے نسبتاً بہتر اور جدید اے ٹی آر طیارے کا حادثہ دیگر حادثات کی طرح ایک حادثہ ہی ہے۔ اس میں موسم کی خرابی کا کوئی عمل دخل نہیں جو اس روٹ پر کسی ممکنہ حادثے کی ہمیشہ سے بڑی وجہ ہو جانے کا خدشہ رہا ہے۔ چترال سے اسلام آباد جانے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 661بھی بخیریت لواری ٹاپ کے موسمی شوائد اور دشوار گزار روٹ سے بحفاظت گزری جس کے بعد طیارے میں خرابی کی اطلاع دی گئی۔ مکمل تحقیقات سے قبل کوئی بھی بات قیاس آرائی ہی ہوگی لیکن اسکے باوجود ایک واضح نقص کی طرف ہر جانب سے اشارہ ملتا ہے کہ طیارے کا ایک انجن پہلے سے محفوظ پرواز کے قابل شاید نہ تھا۔ حالات و واقعات اور شواہد کی روشنی میں یہی قیاس قرین حقیقت دکھائی دیتا ہے کہ طیارے کے انجن میں خرابی کی اطلاع ملنے کے چند ہی منٹوں کے بعد طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا۔ ہر مسافر طیارے میں دو انجن ہوتے ہیں جن میں سے ہر انجن کی صلاحیت اتنی ہوگی ہے کہ اگر ایک انجن مکمل طور پر کام کرنا چھوڑ دے تو پائلٹ دوسرا انجن چلا کر بحفاظت کسی ایئر پورٹ پر لینڈ کر سکتا ہے۔ اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو ایک انجن میں خرابی پیدا ہونا کسی ہنگامی صورت حال کا باعث ہرگز نہیں بنتا اور نہ یہ کوئی غیر معمولی صورتحال ہوتی ہے۔ اس صورت میں احتیاط کے تقاضے کیا ہونے چاہئیں۔ اس کا فیصلہ کنٹرول ٹاور اور پائلٹ کی مشاورت سے ہوتا ہے۔ چترال سے اسلام آباد آنے والی بدقسمت پرواز کا پائلٹ مکمل مہارت اور تجربے کا حامل تھا اس بنا پر اسے کسی انسانی غلطی کا نتیجہ بھی قرار دینا درست نہ ہوگا بلکہ پائلٹ نے کمال مہارت کے ساتھ آبادی کو بچانے کیلئے طیارے کا رخ پہاڑوں کی طرف کر دیا۔ وہ کیا حالات تھے کیا خرابیاں تھیں کیا غلطی تھی اسکی تفصیلات تو جامع رپورٹ آنے کے بعد ہی سامنے آئیں گی۔ ماہرین بھی مختلف رائے اور انداز فکر کا اظہار کرتے ہیں۔ پی آئی اے کے چیئرمین اعظم سہگل کا کہنا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے چترال سے اسلام آباد آنے والے مسافر طیارے کے حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہونے کے حادثے میں انسانی غلطی کا امکان نہیں۔ حادثے کے وقت طیارے سے اطلاع ملی کہ ایک انجن فیل ہوگیا‘ مگر امید تھی کہ ایک انجن کے ساتھ جہاز بحفاظت اترنے میں کامیاب ہو جائے گا‘ ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات کریں گے کہ ایک انجن کے فیل ہونے پر حادثہ کیسے ہوا؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ طیارے کا اکتوبر میں چیک اپ ہوا تھا اور وہ مکمل طور پر ٹھیک تھا ‘ اس کا بلیک باکس بھی مل گیا ہے جسے ایس آئی بی کو بھجوائیں گے۔ تحقیقات کے بعد حادثے کی وجوہات آئندہ چند دنوں میں سامنے لائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ طیارہ 2007ء میں بنا۔ پی آئی اے سے یہ توقع نہ رکھی جائے کہ خراب طیاروں کو استعمال کیا جائے گا۔ ایوی ایشن کے عالمی نگران ادارے ایوی ایشن ہیرالڈ کے مطابق پی کے 661ایبٹ آباد کے قریب انجن میں خرابی کی وجہ سے گر کر تباہ ہوا جبکہ ایئر مارشل (ر) شاہد لطیف کا کہنا ہے کہ ابھی یہ تصدیق ہونا باقی ہے کہ حادثہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے پیش آیا۔ ایئر لائن سیفٹی کے صف اول کے ماہر پروفیسر آرنلڈ ہارٹیٹ کے خیالات اور سوالات خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی نجی ایئر لائن پی آئی اے اکثر اس لسٹ میں رہتی ہے کہ ہر غلط وجہ کیلئے یہ اپنے خراب سیفٹی ریکارڈ کی وجہ سے دوسری ایئر لائنز سے ممتاز ہے۔ ماہرین کے مطابق حکومت ‘ خاص طور پر سول ایوی ایشن اتھارٹی میں موجود ریگولیٹری حکام پاکستان میں موجود ایئر لائنز کے خراب سیفٹی ریکارڈز پر غفلت کی حد تک خاموش رہے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم پاکستان میں ایئر لائن سیفٹی کی حالت زار پر سنجیدگی سے غور کریں۔ اس افسوسناک حادثے سے ملک بھر میں گہرے غم کے جو بادل ہیں اس سوگوار فضا میں اب یہی ممکن دکھائی دیتا ہے کہ آئندہ احتیاط کے تقاضوں اور تکنیکی معائنہ و فلائٹ سیفٹی کے جملہ امور کو یقینی بنایا جائے۔ طیارے کے حادثے کی عبوری رپورٹ جلد سے جلد جاری کی جائے اور مکمل رپورٹ جتنا جلد ممکن ہوسکے مکمل کرکے قوم کے سامنے لائی جائے۔
وزیراعظم میاں نواز شریف کے اس بیان کا ملک بھر میں بہت بڑا چرچا ہے کہ طیارہ کے حادثے کی فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں ۔ وزیراعظم نے طیارہ حادثے کی شفاف اور تفصیلی تحقیقات فوری کرانے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ انکوائری کمیٹی میں پاک فضائیہ کے سینئر افسر کو شامل کیا جائے گا‘ پی آئی اے حکام فوری طور پر متاثرہ خاندان تک پہنچ کر ان کی ممکن معاونت کریں اور ڈی این اے ٹیسٹ جلد مکمل کریں ضروری ہے کہ طیارہ حادثے کے حقائق عوامکے سامنے لائے جائیں۔ خدا کرے کہ طیارہ حادثہ کی تحقیقات بہت جلد عوام کے سامنے آسکے ماضی میں تو کبھی ایسا ہوا نہیں اب اگر یہ تحقیقات بہت جلد منظر عام پر آگئی تو یہ ایک معجزہ ہوگا لیکن پاکستان میں ان دنوں معجزے کم ہی ہوتے ہیں۔دریں اثناء پی آئی اے کے چیئرمین اعظم سہگل کے مستعفی ہونے کی خبر آگئی ہے۔ اس سے سانحے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات ہو سکے گی۔