امریکی صدر ٹرمپ نے الیکشن میں کئے گئے وعدوں پر لفظ بہ لفظ عمل کرنا شروع کیا ہوا ہے حال ہی میں بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرکے امریکی سفارت خانے کو وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ٹرمپ کے اس فیصلے نے ساری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے مسلمان ملکوں کا معمولی سا ردعمل تو آنا ہی تھا لیکن اس بارے فرانس، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، روس اور چین وغیرہ نے بھی سخت مذمت کی ہے یہ لفظی مذمت کی بات ہے، چند روز کے بعد خاموشی اختیار کر لی جائیگی۔ اسلام دشمن مغربی ممالک کی ذہنیت کو سمجھتے ہوئے 1972ء میں بھٹو صاحب نے لاہور میں دوسری اسلامی کانفرنس منعقد کی تھی جس میں تمام مسلمان ممالک کے سربراہان شریک ہوئے تھے اس کانفرنس کا مقصد مسلمان ممالک کو متحد کرنا اور انکی سیاسی، اقتصادی پالیسیوں کو منظم کرنا تھا اس کانفرنس میں آپس میں تجارت اور پیٹروڈالر کی بات بھی کی گئی تھی تمام مسلمان ممالک اس بات پر متفق تھے کہ مسلمان ملکوں کو متحد ہو کر اقوام متحدہ کی طرز پر ایک ادارہ قائم کرنا چاہئے۔ اس کانفرنس نے امریکہ اور اسکے ساتھیوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا انکے دانشوروں اور مفکرین نے بے شمار مضامین لکھے اور مذاکرے کئے جن میں مسلمان ممالک کے منظم ہونے کے نتیجے میں امریکہ اور مغربی ممالک پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا سب جانتے ہیں کہ مسلمان ممالک قدرتی وسائل کے اعتبار سے مالا مال ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمان ممالک کے عوام خوشحال، تعلیم، صنعت و حرفت میں اپنا جائز مقام حاصل کرتے لیکن غیر ملکی سازشوں اور اندرونی اجارہ داروں کیساتھ مل کر وسائل کی بندر بانڈ کر لی اس کا بڑا فائدہ مغربی دنیا نے اٹھایا اور اٹھا رہی ہے۔ مسلم ممالک کی ایلیٹ کلاس کو اقتدار اور لوٹ مار کی طرف دھکیل دیا یہ سلسلہ زور و شور سے آج بھی جاری ہے پھر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ تیونس، مراکش، لیبیا، مصر، عراق اور شام کو خانہ جنگی میں جھونک کر ان ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اب ان ممالک کو واپس تعلیم، ترقی، صنعت و تجارت کی طرف آنے کیلئے برس ہا برس لگ جائینگے اور یہ مغرب کے مالیاتی اداروں کے مقروض رہیں گے۔ اس ’’گریٹ گیم‘‘ کے دو مقاصد تھے پہلا موجودہ پرسکون خوش حالی کے راستے پر گامزن مسلمان ممالک کو خانہ جنگی اور تباہی سے دوچار کرنا، اسلحہ اور دوسرا جنگی سامان مہنگے داموں فروخت کرنا نیز ایسے معاہدے حکمرانوں سے کروائے جا رہے ہیں جو کسی بھی طور ان مسلم ممالک کے قومی مفاد میں نہیں ہیں۔ ورلڈ بنک اور IMF کے بھاری قرضوں کے جال میں مسلمان ممالک کو پھنسا دیا گیا ہے۔ گریٹ گیم کا دوسرا حصہ جس کا تعلق پاکستان کے ساتھ ہے۔ وہ پاکستان سے ایٹمی سازوسامان چھین کر اس ترقی پذیر ملک کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا کر اسے بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ ادھر پاکستانی سیاستدانوں کا کردار انتہائی شرمناک اور بددیانتی پر مبنی ہے۔ جن کی کرپشن کے حوالے سے ہوش ربا داستانیں سامنے آ چکی ہیں‘ آ رہی ہیں۔ بھارت کی روز اول سے پاکستان دشمن کارروائیوں نے پاکستان کو ہمیشہ سے سلامتی کے مسئلے سے دوچار رکھا ہوا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہو یا پانی اور دیگر مسائل ہندوستان کی اکھنڈ بھارت کی خواہش‘ اس کی ترجیحات میں یہ بات شامل ہے کہ وہ پاکستان کو خدانخواستہ مٹا کر رہے گا۔ بھارت کی ریشہ دوانیوں‘ سازشوں اور جنگوں کی وجہ سے پاکستان کے پاس آج ایک طاقتور فوج اور ایٹمی قوت موجود ہے۔ اگر یہ صورتحال نہ ہوتی تو بھارت کب کا پاکستان کو بھی مشرقی پاکستان کی طرح سرنگوں کر چکا ہوتا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کے اندر بیٹھے بھارت کے خفیہ ادارے را اور امریکہ افواج کا ایک خصوصی یونٹ سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کے اندر انتشار پھیلائیں۔ سیاسی‘ لسانی‘ نسلی‘ مذہبی ہر فورم پر پاکستان میں خانہ جنگی کی صورت پیدا کی جائے تاکہ افواج پاکستان ملک میں بکھر جائے تو بڑی فوجی کارروائی کی جائے اور کہا جائے کہ عوام کو خانہ جنگی سے بچانے کیلئے مداخلت کی گئی ہے۔ امریکہ کی خصوصی افواج جو افغانستان میں بیٹھی اس بات کی منتظر ہے کہ جیسے ہی خدانخواستہ پاکستان میں خانہ جنگی کے سے حالات پیدا ہوتے ہیں اور بھارت حملہ کرتا ہے تو اس وقت پاکستان کے ایٹمی اثاثے تباہ یا لوٹ لئے جانے کی کوشش کی جائے۔ اس سلسلہ میں پاکستان کے اندر حکمران اور بھارت کے ایجنٹ مل کر دشمن کیلئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔
ختم نبوت کے مسئلے پر ہونیوالے دھرنے کے 21دن اس بات کے گواہ ہیں حکومت اور عوام کے درمیان بظاہر کوئی اختلاف نہیں تھا اس پر زور زبردستی اور گولی چلا کر سات لاشیں گرانے کی کیا ضرورت تھی اس ظلم کے باوجود ملک میں سکون رہا۔ حکومت ناکام ہوئی، پاکستان اور پاکستانی عوام جیت گئے۔ پاکستان زندہ بادہ۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود کشمیری مسلمانوں کو بھارتی تشدد کا سامنا ہے، ہزاروں کشمیری شہید کئے جا چکے ہیں مسلسل جبر اور ظلم کا سلسلہ جاری ہے لیکن اقوام متحدہ اور انسانیت کی علمبردار تنظیمیں سب خاموش ہیں ایسا ہی کچھ فلسطین میں ہو رہا ہے بجائے مسئلہ حل کرنے کے اسرائیل کی مدد کرتے نظر آتے ہیں۔ برما کی بدھ حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی جاری رکھی ہوئی ہے، اقوام متحدہ نے اس قتل عام کو نسل کشی قرار دیا ہے اور بس اللہ اللہ خیر سلا۔ امریکی اور مغربی ممالک جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے محاورے پر عمل کر رہے ہیں۔ ان ممالک کی اس پوشیدہ صلیبی جنگ کی وجہ سے دہشت گردی نے جنم لیا۔ آنے والے دنوں میں دہشت گردی میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ آج کے دور میں کوئی بڑا، چھوٹا، طاقتور، کمزور نہیں ہوتا سب برابر ہیں۔ تعلیم اور سائنس نے ہر قسم کی صورتحال سے عہدہ برآ ہونے کے گُر سکھا دئیے ہیں اب وہی معاشرے سکون اور امن سے رہ پائیں گے جہاں عدل ہو گا، انصاف ہو گا۔