کرنل ارشد نذیر
ہر سال 16دسمبر کا دن ڈرائونے خواب کی طرح آتا ہے ہم سب پاکستانی بھائی اپنی گہری نیند سے اُٹھتے ہیںاور یہ سوالات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
وہ کیا ہوا … کیسے ہوا… کس نے کیا… کدھر ہوا… کب ہوا… اور چھوڑو۔ اُس دن ہم ایک دوسرے کے بال و پَر اُدھیڑ اُدھیڑکر یہ سوالات ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں۔ کم ازکم ٹی وی چینلوں پر تو یہ نظر آتا ہے۔اس مضمون پر اور پھر دیکھئے تو سہی کہ ہم کیا کرتے ہیں ۔17 دسمبر آتا ہے تو ہم پھر گہری نیند سو جاتے ہیں ۔ اگلے سال 16 دسمبر ہم پھر یکایک جاتے ہیں اور ہر طرف ہم پھر یہی سوال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔میں حیران ہوں اپنے دانشور بھائیوں پر۔ اُن کو ان سوالات کے جواب اب تک کیوںنہیں ملے۔ایسا کیوں لگتا ہے کہ ان سب دانشور بھائیوںنے اتنی اہلیت ہی نہیں دکھائی کہ ان سوالات کے جوابات ان گزرے ہوئے 46سالوں میں وہ نہیں ڈھونڈ سکے۔ ہمارے 1971ء کے کئی لیڈر کچھ کتابوں میں وہ باتیں چھوڑ گئے ہیں۔ایک کتاب بعنوان "میمو آئرز"آف جنرل گل ۔ سن(Memoris of Genral Gul Hassan)میں لکھا ہے کہ جنرل گل حسن (جو پاکستان آرمی چیف آف دی جنرل سٹا ف تھے) نے جنرل امیر عبداللہ خان نیازی (کمانڈر ایسٹرن کمانڈر) کو9دسمبرکو فون کیا اور جنرل نیازی صاحب سے کہا کہ آپ اپنی فوج کو ڈھاکہ بائول میں لے جانے کے بہت لیٹ نہیں ہو رہے ہیں۔ جنرل نیازی نے جنرل گل حسن کو جواب دیا ۔ مجھے تو CMLA (یعنی چیف مارش ایڈمنسٹریٹر ہیڈ کوارٹر ) سے براہ راست احکامات آ رہے ہیںکہ میں اپنی فوجوں کو بارڈرز پوسٹون کی لائن پر لڑاتا رہوں۔ فون پر ایسی بات چیت سے مندرجہ ذیل حقائق ظاہر ہوئے ہیں:۔1۔ڈھاکہ بائول کی طرف پسپائی کر کے وہا ں پر دفاعی پوزیشن لے کر حد سے زیادہ بھارتی بھر کم بھارتی افواج کے ساتھ لڑائی جاری رکھنا بہت سود مند تھا ۔2۔ڈھاکہ کے مغرب میں تین دریا شمالی سے جنوب بہتے ہیں اور اسی طرح ڈھاکہ کے مشرق میںتین دریا شمال سے جنوب بہتے ہیں۔ یہ علاقہ 100کلو میٹر چوڑا لمبا تھا اور ڈھاکہ بائول(Dacca Bowl)کے نام سے موسوم تھا۔3۔بھارتی حملہ آور افواج تیس ڈویژن کے مقابلاتی زور سے حملہ کر رہی تھی۔ 4۔پاکستانی دفاعی افواج صرف ڈیڑھ ڈویژن کے مقابلاتی زور سے مشرقی پاکستان کا دفاع کر رہی تھی۔5۔بھارتی حملہ آور سبھیں اور ایک کی نسبت سے پاکستانی افواج سے زیادہ تھیں۔6۔اگر جنرل نیازی کو اپنی افواج کو ڈھاکہ بائول میںلے جا کر جنگ جاری رکھنے کی اجازت مل جاتی تو بھارتی افواج کی تیس (30)ڈویژنوںکا باپ بھی ہماری افواج کی سرنڈر نہیں لے سکتا تھا۔کب ایسے حقائق کتابوں میں چھب چکے ہیں تو ہمارے دانشوروں کو ایسے حقائق پر یقین کر لینا چاہیے۔ اگر ایسے حقائق پر انکو یقین نہیں آتا تو پھر ان سب اہلِ دانش کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسے حقائق کو جھٹلانے کے لیے لکھیں۔جنرل پرویز مشرف صاحب 16دسمبر 2015ء کے دن ٹی وی پر آئے ۔ ان سے ٹی وی اینکر نے پوچھا کہ اگر آپ جنرل نیازی کی جگہ ہوتے تو آپ کیا کرتے۔ جنرل پرویز مشرف نے جواب دیا کہ میں اپنی فوج کو دریائوں سے پیچھے لے جاتا (یعنی ڈھاکہ بائول میں) اور وہاںسے جنگ جاری رکھتا اور کوئی سرنڈر نہ وہوتی۔