مجید نظامی صاحب کو ان دنوں دل کا عارضہ لاحق تھا واقعی وہ چند ماہ بعد کراچی آئے اور پہلے بائی پاس آپریشن کیلئے امریکہ کے شہر بوسٹن پہنچ گئے۔ بہرحال اسی روز مجید نظامی صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ ڈاکٹروں کی سختی سے ہدایت ہے کہ وہ 9 بجے ٹیلی فون بند کر دیتے ہیں اور بعد میں خواہ کوئی ایمرجنسی ہو وہ لائن پر نہیں آتے۔ میرے بار بار کوشش کرنے پر کسی نے فون نہ اٹھایا، ایک ایمرجنسی نمبر پر بھی میں نے رابطہ کیا لیکن وہاں سے مجھے نظامی صاحب کے ڈرائیور نے بتایا کہ اس وقت ہم انہیں کوئی اطلاع نہیں کر سکتے۔ میں نے اپنے مہمانوں کو ساری روداد سنائی اور معذرت کی۔
احد یوسف صاحب کا مشورہ تھا کہ خبر ایک دن روک لیں ہم خود نظامی صا حب سے بات کر لیں گے ہمیں یقین ہے کہ وہ ہماری درخواست مان لیں گے۔ میری یوں بھی جوانی کے دن تھے، اگرچہ نظامی صاحب نے پہلے دن سے ہدایت کی تھی کہ میں جیل نہیں جانا چاہتا لہٰذا کوئی ایڈونچر نہ کرنا لیکن یہاں تو نظامی صاحب خود مجھے اجازت دے چکے تھے لہٰذا چوکے چھکے لگانا مجھے اچھا لگ رہا تھا، ابھی یہ بحث جاری تھی کہ چیف سیکرٹری کے آنے کی اطلاع مل گئی وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے انہوں نے کہا کہ ہم حکم دے سکتے ہیں اور آپ انکار نہیں کر سکتے یہ مارشل لاء ہے کوئی مذاق نہیں ہے۔ میں نے کہا بہترین طریقہ تو یہ ہے کہ میں اپنی تسلی کر چکا ہوں ٹیلی فون آپکے سامنے ہے آپ نظامی صاحب سے خود بات کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آنے سے پہلے یہ کوشش کر چکے ہیں اور ’’نوائے وقت‘‘ لاہور سے بھی رابطہ کیا جا چکا ہے، چیف سیکرٹری نے اچانک میرے ہی ٹیلی فون سے نمبر ڈائل کیا اور کسی سے بات کرکے رسیور مجھے دے دیا اور مجھ سے کہا وفاقی سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمان سے بات کریں۔ جنرل مجیب صاحب سے میرے اچھے تعلقات تھے، انہوں نے کہا کہ میں نے ساری بات سن لی ہے آپ بتائیں مجید نظامی صاحب نے کیا کہا تھا میں نے روداد سنائی اور یہ بھی بتایا کہ وہ ہنس رہے تھے۔ جنرل مجیب نے کہا کہ یار کل تک کیلئے خبر روک لو میں نے فون کیا تھا وہ موجود نہیں یار ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھو اور ہماری پوزیشن سمجھو، گورنر صاحب بہت پریشان ہیں میں نے مذاق میں کہا ہے کہ نظامی صاحب کے بقول وہ اپنا گھر سنبھالیں۔ دس بارہ منٹ تک وہ اصرار کرتے رہے بالاخر میرے انکار پر وہ قدرے غصے میں آ گئے اور بولے مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ اگر فیصلہ ضیا شاہد نے کر لیا ہے تو وہ کسی کی بات نہیں مانیں گے، چل بھائی تو اپنا رانجھا راضی کر لے ہماری خیرہے، یہ سن کر میں نے فون بند کر دیا اور ’’حکومتی فوج‘‘ کو ان سے گفتگو کا خلاصہ بیان کرنے کے بعد کہا کہ بھائی صاحب آپ گھر چلیں اور مجھے اپنا کام کرنے دیں۔
واقفان حال کو معلوم تھا کہ مجید نظامی صاحب جنرل ضیا کے منہ پر بھی اپنے موقف کے حق میں سخت ترین گفتگو کرتے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ اگر میرے اخبار کا چیف ایڈیٹر مجید نظامی کے بجائے کوئی اور ہوتا تو میں یہ کبھی سٹینڈ نہ لیتا۔ صبح نوائے وقت کراچی چھپا اور ڈٹ کر چھپا آٹھ دس روزانہ اخبارات تھے کسی نے یہ جرأت نہ کی کہ مارشل لاء کے دور میں ایک لیفٹیننٹ جنرل گورنر کی خواہش ٹھکرا دے۔
گیارہ بجے مجھے اطلاع ملی کہ ایک بجے جنرل مجیب الرحمن اسلام آباد سے کراچی پہنچ رہے ہیں اور اسی فلائٹ کے آٹھ گھنٹے بعد لاہور کی فلائٹ سے مجید نظامی بھی کراچی پہنچ جائینگے۔ میں نے مجید نظامی صاحب کا کمرہ جو دوسری منزل پر اس میں کچھ کرسیاں لگوائیں کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ گرینڈ جرگہ ادھر ہی لگے گا، مجید نظامی کے دفتر پہنچنے کے بعد جنرل مجیب الرحمن اپنے سرکاری لائو لشکر سمیت ’’حملہ آور‘‘ ہوئے رات والی ’’حکومتی فوج‘‘ انکے ہمراہ تھی سب نے ہاہاکار کی۔ مجھے سب کے تیروں کا نشانہ بننا پڑا، نظامی صاحب بالکل خاموش رہے۔ یوں گھنٹے تک جب یہ شور شرابا جاری رہا اور سب نے مجھے مطعون کرنے کی بھرپور کوشش کی میں نے صرف ایک بار بولنا چاہا تو نظامی صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔ جب طوفان ذرا تھما تو جنرل مجیب الرحمن نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ آپ نے ایک بار اجازت دے دی تھی جب ضیا صاحب کو میں نے درخواست کی بھی تھی کہ کل تک اپنا فیصلہ روک لیں مجید نظامی صاحب آپ کو ڈانٹنے کی بجائے شاباش دینگے انہیں ایک رات کیلئے رک جانا چاہئے تھا، نظامی صاحب آپ ہمارے بہت محترم ہیں مگر جو کچھ ہوا اچھا نہیں ہوا چیف سیکرٹری صاحب تو مصر تھے کہ ضیا صاحب کو اٹھا لیا جائے اور نیوز روم میں پولیس کھڑی کر دی جائے تاکہ وہ زبردستی اس اخبار کو رکوا کر باقی اخبار پریس میں بھجوایا جا سکے لیکن ہم نے آپکے ڈر کے مارے یہ ہمت نہیں کی۔ نظامی صاحب میری طرف دیکھ کر ہنس کر بولے اچھا تھا انہیں جیل لے جاتے جب سے نوائے وقت میں آئے ہیں انہوں نے جیل کی سیر نہیں کی۔ ماحول کی تلخی میں قدرے کمی ہو گئی۔ میں نے چائے اور لوازمات کا بندوبست کر رکھا تھا چند منٹ خاموشی رہی پھر نظامی صاحب نے جنرل مجیب الرحمن کو کہا کہ امیرالمومنین سے فون پر بات ہو سکتی ہے؟ جنرل مجیب بولے جی میں کوشش کرتا ہوں انہوں نے راولپنڈی کال ملائی جہاں ضیاء الحق بیٹھے تھے۔ آٹھ دس منٹ کی کوشش کے بعد جنرل صاحب لائن پر آ گئے انہوں نے کہا سر میں ہدایت کے مطابق کراچی پہنچ گیا ہوں محترم مجید نظامی صاحب بھی لاہور سے آ گئے ہیں۔ ملزم ضیا شاہد بھی حاضر ہے۔ جناب مجید نظامی صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں یہ کہہ کر جنرل مجیب نے رسیور مجید نظامی صاحب کی طرف بڑھا دیا۔
سلام دعا کے بعد مجید نظامی صاحب کچھ دیر خاموش رہے غالباً جنرل ضیاء الحق اپنی شکایت درج کروا رہے تھے۔ جو لوگ مجیدنظامی صاحب سے واقف ہیں انہیں معلوم ہے کہ ان کا تکیہ کلام تھا معاف کیجئے گا‘ جنرل ضیا کی گفتگو چندمنٹ سننے کے بعد نظامی صاحب نے مختصر گفتگو کی یوں لگتا تھا کہ کرکٹ کی اصطلاح میں ہر کوئی بمشکل ایک ایک رن لے رہا تھا۔ مجید نظامی صاحب نے ایک ہی چھکا لگایا اور میچ ختم ہوگیا۔ مجیدنظامی نے کہا جنرل صاحب آپ پورا ملک کیا چلائیں گے۔ آپ نے ایسے جرنیل کو سندھ جیسے بڑے اہم صوبے کا گورنر بنا رکھا ہے جو اپنی بیوی کو کنٹرول نہیں کرسکتا، اگر آپکی گورنر ہائوس میں بھی کوئی انٹیلی جنس ہے تو معلوم کرلیں گزشتہ رات جنرل صاحب نے بیوی کو ڈانٹا تھا یا بیوی نے انہیں تھپڑ مارے تھے۔ میرا خیال ہے کہ دوسری طرف ضیا صاحب کی گفتگو ہمیں سنائی نہیں دے رہی تھی مگروہ ضرور بے اختیار ہنس پڑے ہوں گے۔ مجید نظامی صاحب نے ریسیور سائیڈ پر رکھ دیا اور جنرل مجیب الرحمن سے کہا کہ اب کوئی اور بات کریں۔ کچھ دیر رسمی بات چیت کے بعد جرگہ منتشر ہوگیا ۔ (ختم شد)