سڑک کے بائیں جانب کھڑی کار کے قریب سے یونہی موٹر بائیک گزری تو کار کے اندر سے ہوائی برسٹ فائر ہوا۔ بائیک کی سپیڈ زیادہ نہیں تھی ، پھربھی بائیک لڑکھڑائی اورپیچھے بیٹھے دو سوار گر گئے۔ اسی دوران کار سے ایک سیدھا فائر بائیک پر بیٹھے نوجوان کی ٹانگ سے پار ہو گیا۔ وہ بھی گر گیا آناً فاناً گاڑی سے تین نوجوان نکلے۔ انہوں نے گرے لڑکوں کی گردن پر بندوقوں کی نالیاں رکھ لیں۔ جس نوجوان کو گولی لگی تھی وہ ان کو پہچان گیا اس نے غصے سے کہا .... دے بچیو میں مہران کا بھائی ہوں۔ کار میں سول کپڑوں میں پولیس اہلکار بیٹھے تھے۔ انہوں نے ایک اشتہاری کو قابو کر کے گاڑی میں بٹھا رکھا تھا۔ انہیں اسکے ساتھی دوسرے اشتہاری بیرو کی تلاش تھی۔ بائیک جوں ہی قریب سے گزری تو پولیس کے بقول زیرحراست اشتہاری نے کہا بیرو یہی ہے۔ یہ صبح چھ بجے کا واقعہ ہے۔ تینوں لڑکے چک 113 گ ب تحصیل جڑانوالہ سے گتہ فیکٹری جا رہے تھے۔ پولیس نے فیکٹری کے سامنے ناکہ لگارکھا تھا۔ جس نوجوان کو فائر لگا اس کا نام نادر پرویز اور اس نے مہران کا نام لیا تو پولیس والے پریشان ہو گئے ۔ مہران ان میں سے ایک کا بیچ میٹ اور دوست تھا۔ ان لوگوں نے فائر شک کی بنا پر کھولا، غلطی کا احساس ہوا تو فوری طور پر زخمی کو ہسپتال پہنچانے کی کوشش کی۔ نادر میرے فرسٹ کزن کا بیٹا اور اہلیہ کا بھتیجا ہے۔ ہمیں اطلاع ہوئی تو دیکھنے چلے گئے، اسے الائیڈ ہسپتال داخل کرایا گیا تھا۔ پولیس اہلکار اپنی غلطی پر نادم اور سپاہی سے ایس ایچ او اور ایس ایس پی نے معذرت کی۔ ڈی پی او کا بھی فون آیا۔ انسانی غلطی تھی اس میں پولیس والوں کی بدنیتی کا عمل دخل نہیں تھا اس لئے نوبت پرچے، مقدمے تک نہ پہنچی مگر اس واقعہ کا تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ پولیس زخمی کو فوری طور پر قریبی پرائیویٹ ہسپتال لے گئی۔ انہوں نے پولیس کیس کہہ کر علاج کرنے سے انکار کر دیاجبکہ زخمی کی ٹانگ سے خون بہہ رہا تھا۔ الائیڈ ہسپتال میں بھی پہلے پولیس رپورٹ درج کرنے کو کہا گیا۔ تاہم مہران نے پہنچ کر اپنا پیٹی نمبر درج کراکے داخل کرایا۔ کسی بھی زخمی کے داخلے کےلئے پولیس رپورٹ کی شاید کوئی قدغن ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ سراسر غیرانسانی ہے۔ فوری طور پر زخمی کی جان بچانے کی کوشش ہونی چاہئے۔ بلا تفریق اسکے کہ زخمی کون ہے۔ خواہ وہ ڈاکو اور دہشت گرد ہی کیوں نہ ہو، اسے فی الفور ہسپتال داخل کیا جائے بعد میں رپورٹوںکا قانونی تقاضا پورا کرلیا جائے۔ ہسپتال کا وزٹ کرتے ہیں تو وارڈ میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد کہا جاتا ہے۔ ”ڈاکٹر راﺅنڈ پرآ رہا ہے“ اس پر ایسی افراتفری مچتی ہے جس طرح بھرے بازار میں کوئی ریڑھی اور خوانچہ والوں سے کہہ دے کارپوریشن والے آ گئے یا جواریوں سے کہہ دیا جائے پولیس آ گئی۔ ہسپتالوں میں کبھی پارکنگ فیس نہیں ہوتی تھی۔ اب یہ نافذ العمل ہے۔ رات کو ڈبل کر دی جاتی ہے۔ حالانکہ رات کو عملہ کم ہوتا ہے اور اس نے بھی صرف وصولی کرنی ہوتی ہے۔شہباز شریف نے پارکوں اور ہسپتالوں میں پارکنگ فیس ختم کردی تھی،پارکوں میں اب بھی ٹکٹ اور پارکنگ فری ہے مگر ہسپتالوں میں مافیاکا شافیا کیساتھ گٹھ جوڑنہیں ٹوٹ رہا۔
دوسرا سفر لاہور سے پینسرہ کرنا پڑا۔ یہ براستہ موٹر وے کیا۔ موٹروے نوازشریف کے کارنامے کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ پہلے موٹر وے میں کمیشن اور حدیبیہ پیپر مل کی داستانیں زبان زدعام رہیں یہ مقولہ تو ایک نظرئیے اور فکر و فلسفے کا درجہ اختیار کر گیا۔”اگر کھاتے ہیں تو کچھ لگاتے بھی ہیں“۔ موٹر ویز کا ملک میں جال بچھا ہے۔ سڑکوں کے گرد شجرکاری کا سلسلہ شیرشاہ سوری نے شروع کیا تھا۔ گورنر نواب کالا باغ نے اس روایت کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ افسوس یہ روایت دم توڑ گئی تاہم موٹرو یز کے گرد بڑی تعداد میں درخت لگائے گئے ہیں۔ موٹر وے سے فیصل آباد کی جانب جائیں تو موٹر وے کے درمیان ڈیوائیڈر نہیں۔ 20 پچیس فٹ چوڑی ”صحرائی“ بیلٹ ہے‘ اس پر سبزہ ہو تو بجا طور پر اسے گرین بیلٹ کہا جا سکتا ہے۔ مگر اس کا زیادہ حصہ چیٹل ہے۔ کہیں کہیں جھاڑیاں نظر آتی ہیں۔ کہیں کہیں کھجور کا درخت بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سے گمان ہوتا ہے کہ کسی عرب صحرا وریگستان سے گزر رہے ہیں اسی گمان کو کہیں کہیں اونٹ کے ماڈل کھڑے کر کے حقیقت کا روپ دیا جا سکتا ہے۔ موٹر وے کے گرد حد نظر تک فصلیں لہلہاتی ہیں۔ کھیت درکھیت سرسوں کے پیلے پھول عجب نظارہ پیش کرتے ہیں۔ فصلوں میں گھنے تناور درخت بھی زمین کی زرخیزی کے گواہ ہیں مگرموٹر وے کے اطراف لگے جنگلے کے اندر اگر کچھ ہے توسرکنڈے اور جھاڑیاں ہیں۔ تھوڑی سی محنت سے موٹرویز کے گرد باڑ کے اندر باغات لگائے جا سکتے ہیں جنگلہ پہلے سے موجود ہے اسے مزید مضبوط بناکر نایاب جانور چھوڑے جاسکتے ہیں۔ شجرکاری تو بلاتاخیر کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے پانچ سال میں دس ارب درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ روزانہ 55 لاکھ درخت لگیں تو پانچ سال میں دس ارب پورے ہونگے۔ شاہراہوں اور موٹرویز کی اطراف شجرکاری سے ہدف پورا ہوسکتا ہے اورانکی رعنائیوں اور زیبائیوں میں اضافہ بھی ہو گا۔ پینسرہ کے قریب کچھ درخت پہلی مرتبہ دیکھے،پتہ چلا کہ یہ سنبل ہیں۔ سڑکوں اور موٹر ویز کے کنارے پھلدار درختوں میں زیتون کے لگائے جاسکتے ہیں۔ زیتون کے تیل کی اپنی افادیت ہے تاہم سہانجنا کا تیل اس سے زیادہ کارآمد ہے سہانجنا یا مورنگا مقامی درخت ہے جسکی تین سال میں مکمل افزائش ہو جاتی ہے۔ یہ وطن چمن بن سکتا ہے صرف نیت اور توجہ کی ضرورت ہے۔