کائنات میں زمین وہ واحد سیارہ ہے جہاں زندگی پائی جاتی ہے اور اس کا سبب صرف پانی ہے زمین کے علاوہ آج تک دریافت شدہ کروڑوں سیارے ستارے بے آب و گیاہ پائے گئے ہیں ۔خالق کائنات نے جب زمین پر زندگی پروان چڑھائی تھی تو اس کے وسیع حصے پر پانی پھیلادیا زمین کا 70 فیصد حصہ پانی اور صرف 30 فیصد خشکی پر مشتمل ہے یہی حال ہمارے جسم کا بھی ہے جس میں دوتہائی حصہ پانی ہے ۔ ایک عام انسان کے جسم میں 35 سے 50 لیٹر تک پانی ہے اگر انسانی دماغٖ کو ہی دیکھ لیں تو اس کا 85 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے امراض سے لڑنے والے ہمارے خلیے خون میں سفر کرتے ہیں اور خون بذات خود 83 فیصد پانی ہے ہمارے ہر جسمانی خلیے میں موجود پانی سے بدن کے تمام نظام چلتے ہیں لٰہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پانی ہی زندگی ہے ۔ پانی انمول نعمت ہے جس کی حفاظت کرنا اور بچانا ہم سب کافرض ہے ۔ہم پانی کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں گے تو ہماری نسلوں کی بقا ممکن ہوگی ۔ ہمیں احساس تک نہیں کہ کتنی تیزی سے ہماری زندگی موت کی وادیوں میں جارہی ہے ۔زمین پر اور اس کے اندر چھپے خزانوں کے بارے میں جان کر انسان دھنگ رہ جاتا ہے ان خزانوں میں سب سے اہم خزانہ پانی ہے جس کی فروانی نے ہماری ناقدری کے نتیجے میں آج قلت کا شکار کردیا ہے۔ کوئی وقت تھا جب ملک میں 5650 مکعب میٹر پانی فی کس دستیاب تھا جو 49 سال بعد 2000 میں کم ہوکر 1400 مکعب میٹر اور آج 2018 میں ( مختلف رپورٹ کے مطابق )صرف 865 مکعب میٹر فی کس رہ چکا ہے اور صرف بات یہاں ہی ختم نہیں ہورہی آئی ایم ایف یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی رواں سال آنے والی مختلف رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے بڑھتا جارہا ہے اور 2040 تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔کیوں کہ پاکستان دنیا میں سب زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں اور پورے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف دوذرائع ہے جس کی مدد سے صرف 30 دن کا پانی جمع ہوسکتا ہے انڈس رپورسٹم اٹھارٹی (ارسا)کا کہنا ہے کہ پانی کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پانی میں ہر سال 21 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع ہوجاتا ہے اور جتنا پانی سمندر میں جاتا ہے بچانے کے لیے منگلاڈیم کے حجم جتنے تین ڈیموں کے اشد ضرورت ہوگی ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہرسال تقریباً 145 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کے باعث صرف 13.7 ملین ایکڑ فٹ پانی بچایا جاسکتا ہے یعنی اپنی کوتاہیوں ،کمزوریوں اور غفلت کے باعث پر سال 131.3 ملین ایکڑ فٹ پانی کی قدرتی امداد کو ضائع کربیٹھتے ہیں ایک زرعی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان میں پانی کی اہمیت مزیدبڑھ گئی ہے اگرچہ ملک میں 16 ملین اراضی پر کاشت کاری ہورہی ہے لیکن 18 ملین ہیکٹر اراضی ایسی بھی ہے جو قابل کاشت ہونے کے باوجود کاشتکاری سے محروم ہے اور اس سب سے بڑی وجہ پانی کی عدم دستیابی ہے۔پھر بات یہاں تک ہی رہتی تو شاید کچھ گزارہ ہوجاتا لیکن پانی کی روز یا روز بڑھتی قلت قابل کاشت اراضی کو بھی بنجر بنارہی ہے ملکی معیشت میں شعبہ زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے تو جب وہ شعبہ ہی کمزور ہوجائے تو اس ملک کے پاس کیا بچے گا؟پاکستان میں مسلسل گھٹتے پانی کی دوبنیادی وجوہ ہیں ایک پانی کا غیر ضروری بے دریغ استعمال اور دوسرا اسکو محفوظ بنانے کے لیے ذخائر کی کمی لٰہذا بحیثیت قوم جہاں ہمیں ایک طرف پانی کے ضیاع کو روکنا ہوگا وہاں ہمیں ہنگامی بنیادوں پر ڈیم بانے کی ضرورت ہے لیکن افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ڈیم کے معاملے میں ہم نے کبھی سرمایہ کی کمی کا رونا رویا تو کبھی ملک کے بہترین مستقبل کو سیاست کے بھینٹ چڑھادیا۔ہردور میں آنے والا حکمران طبقہ اپنے نمائشی پروگرامز جبکہ اپوزیشن اپنی سیاسی موشگافیوں میں مصروف رہی کئی سال تک لیت ولعل سے کام لینے کے بعد دسمبر 2005 میں پرویز مشرف نے سب سے قابل عمل اور فائدہ مند منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پاکستان کے وسیع ترمفاد میں کالا باغ ڈیم تعمیر کرکے رہیں گے لیکن پھر 26 مئی 2008 میں وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی کی حیثت سے راجہ پرویز اشرف نے بیان دیا کہ خیبر پختونخواہ ،سندھ اور دوسرے فریقین کی مخالفت کی وجہ سے کالا باغ ڈیم قابل عمل نہیں رہا جس کے بعد پھر بھاشا ڈیم کی منظوری دی گئی تو یہ منصوبہ بھی ہمارے حکمرانوں کی غفلت کے باعث تعطل کا شکار رہا،لیکن آج کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے نہ ہونے کے بعد بھاشا ڈیم کی تعمیر وقت کی اہم ترین ضرورت ہے یہ ارض پاکستان کی بقاء اور آئندہ آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کا سوال ہے بھاشا ڈیم پاکستان کے لیے ناگزیر ہے اب پیچھے نہیں ہٹنا آج بڑے بڑے ماہرین بھاشا ڈیم کی تعمیر کے قومی عزائم پر انگشت بدندان ہیں کہ عالمی ماحولیاتی اداروں کی مدد کے بغیر اپنے بڑے پراجیکٹ کی تکمیل کیسے ممکن ہوسکتی ہے ؟ہم ان ماہرین کے وسیع تجربے کی روشنی میں کیے جانے والے تجزیوں سے انکاری تو نہیں لیکن قوم کا غیر متزلزل عزم پہاڑوں میں راستوں کو تسخیر دریاوں کا رخ بدل اور ریگستانوں کو گل و گلزار بنا سکتا ہے بھاشاڈیم کے لیے قوم فخر سے چندہ بھی دے گی اور ایک باریہ منصوبہ شروع ہوجائے تو دنیا بھر کے سرمایہ کار بھی اس طرف لپکیں گے، بس ضرورت صرف اخلاص کے ساتھ پہلا قدم اٹھانے کی ہے۔