پنجاب میدان جنگ بن رہا ہے؟؟؟؟

پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہونے والے تکلیف دہ اور افسوسناک واقعے نے ناکام انتظامیہ کو بے نقاب تو کر دیا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ وہ صوبہ جہاں امن و امان کے اعتبار سے حالات مشکل ترین دور میں بھی نسبتاً سازگار رہے آج وہاں خوف کی فضا ہے۔ وحشت رقص کر رہی ہے، تھانے، ہسپتال عدالتیں دہشت کی علامت بنی دکھائی دیتی ہیں۔ جیل روڈ جیسے مصروف اور حساس علاقے میں پولیس وین کو جلایا جانا معمولی واقعہ نہیں ہے۔ پی آئی سی میں وکلا کی توڑ پھوڑ کسی دہشت گردی سے کم نہیں، ڈاکٹرز کی جانب سے وکلا کی تذلیل بھی ناقابل قبول ہے، ڈاکٹرز کی طرف سے نفرت انگیز مواد کو پھیلانا بھی قابل گرفت ہے۔ سرکاری عمارتوں اور سرکار کے ملازمین کی طرف سے اس غیرذمہ دارانہ رویے کی حوصلہ شکنی اور اس کے ذمہ داروں کو نشان عبرت بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ رویے کسی طور قابل قبول نہیں ہیں۔ اس صورتحال میں پنجاب حکومت کے کمزور کردار اور انتظامیہ کی کوتاہی کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آج پاکستان تحریک انصاف کو تنقید کا سامنا ہے تو اس کی وجہ پنجاب کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ناانصافی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو پنجاب نے ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ انہیں اپنے ہی صوبے سے مخالفت اور مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
حالات اتنے اچھے نہیں ہیں کہ معاملات کو نظر انداز کیا جائے۔ مسائل اتنے سادہ نہیں ہیں کہ غیر ضروری ڈھیل دی جائے۔ ہر روز کے لڑائی جھگڑے، حادثات اور سرکاری تنصیبات کو نقصان پہنچانے سرعام فائرنگ اور آتشزدگی کے واقعات کو بروقت نہ روکا گیا تو خدانخواستہ پنجاب کو خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ممکن ہے اس سوچ اور فلسفے کو زیادہ لوگوں کی حمایت حاصل نہ ہو بعض کے نزدیک یہ اس سوچ کو قبل از وقت قرار دیا جا سکتا ہے لیکن لاہور میں اہم مقامات پر رینجرز کی تعیناتی کے بعد یہ سمجھنے میں زیادہ وقت نہیں لگنا چاہیے کہ حالات خراب ہی نہیں بہت زیادہ خراب ہیں۔ رینجرز کا آنا حالات قابو سے نکلنے کی نشاندہی کر رہا ہے، اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ پی آئی سی کے سانحے کے بعد صوبائی دارالحکومت میں امن و امان کو شدید خطرات لاحق تھے اور انتظامیہ ان حالات میں بے بس تھی کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے اور بڑے نقصان سے بچنے کے لیے رینجرز کی تعیناتی کی ضرورت پیش آئی ہے۔ رینجرز کی آمد نے تصدیق کی ہے معمول کے دنوں میں امن و امان کو قابو میں رکھنے والے اور ان اداروں کی سربراہی کرنے والے ناکام ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کیے گئے ہیں۔
ان اقدامات کی سب سے بڑی وجہ عوامی سطح پر بڑھتی ہوئی تقسیم، نفرت اور پرتشدد کارروائیاں ہیں۔ ایسے واقعات کو بروقت نہ روکا گیا تو اس کے نتائج خطرناک ہی نہیں تباہ کن بھی ہو سکتے ہیں۔ ایک روز پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں تباہی و بربادی ہوئی اس سے اگلے روز بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبا کی ایجوکیشن ایکسپو کی اختتامی تقریب میں لسانی طلباء تنظیم کے حملے میں فائرنگ سے گلگت سے تعلق رکھنے والے سید طفیل جاں بحق ہوئے۔ یہ افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ شکر ہے لیاقت بلوچ محفوظ رہے البتہ چار طلبا شدید زخمی ہوئے۔ بعد میں بھی طلباء تصادم میں دس طالبعلموں کا زخمی ہونا حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ فائرنگ کے واقعے سے قبل ہوسٹل میں بھی طلباء کے مابین جھگڑا ہوا تھا۔ بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر جامعہ میں بھی رینجرز کو تعینات کرنا پڑا ہے۔ ان واقعات کے بعد ہمیں اندازہ ہو جانا چاہیے کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں۔ جامعات میں لڑائی جھگڑے ہیں، ہسپتالوں میں علاج کے لیے آنے والوں میں عدم تحفظ ہے اور عدالتوں میں حصول انصاف کے لیے آنے والے بھی خوار ہو رہے ہیں۔ کیا یہ سب چیزیں اچانک اور ازخود ٹھیک ہو جائیں گی یقیناً ایسا نہیں ہے۔ یہ تمام واقعات سوچے سمجھے کھیل کا حصہ ہیں وہ طاقتیں جو کچھ عرصہ قبل پاکستان کے معاشی گڑھ کراچی پر قبضہ کیے بیٹھی تھیں، وہ طاقتیں جنہوں نے کراچی کے امن کو تباہ کیا تھا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ان طاقتوں نے اپنا مرکز بدل لیا ہے اور انہوں نے پنجاب میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ پنجاب میں ہونے والے پے در پے واقعات کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی ہم اس انداز میں سوچنے پر مجبور ہیں۔ اعلی حلقوں میں اس حوالے سے ہونے والی گفتگو تشویش میں اضافہ کر رہی ہے۔ دنیا کو سب سے پہلے لاہور سے امن کا پیغام گیا تھا جب قذافی سٹیڈیم میں پاکستان سپر لیگ کا فائنل ہوا تھا پھر ہم مرحلہ وار بہتری کی طرف گئے اور یہ سلسلہ کراچی تک بڑھتا چلا گیا لیکن اب لاہور ہی میدان جنگ کا منظر پیش کرے گا تو دنیا کو کیا پیغام جائے گا۔ ہم نے آگے کی طرف سفر کرنا ہے یا بیک گیئر لگانا ہے۔ ہم نے ملک بھر میں امن و امان قائم کرنا ہے یا پھر پرامن علاقوں کو بھی میدان جنگ بنانا ہے۔ پنجاب وزیراعظم عمران خان کی طرف دیکھ رہا ہے۔ پنجاب کو توجہ کی ضرورت ہے۔ گذشتہ چند ماہ میں مہنگائی نے پنجاب کے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ اب عوام کو مہنگائی کے ساتھ ہنگاموں کا بھی سامنا ہے۔ عوام اپنی مدد آپ کے تحت کب تک مسائل اور مصیبتوں کا سامنا کرتے رہیں گے۔ حکومت کو بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی ضرورت ہے۔ پنجاب کی دکھوں ماری عوام اپنے منتخب وزیر اعظم کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو سازشیوں، نالائقوں، مفاد پرستوں، دہشت گردوں، غنڈوں، ناجائز منافع خوروں اور جرائم پیشہ افراد سے بچانے کے لیے وزیراعظم کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...