وکلاء کو ہسپتال پر حملے کی جرات کیسے ہوئی: ہائیکورٹ

لاہور (اپنے نامہ نگار سے‘ نیوز رپورٹر‘ نوائے وقت رپورٹ) ہائیکورٹ میں پی آئی سی حملے میں گرفتار وکلاء کی رہائی کی 4 درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔ درخواست میں آئی جی پنجاب سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ دوران سماعت اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ابھی تک 81 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔گرفتار وکلاء کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہم کوئی بھارت سے جنگ لڑنے نہیں آئے۔ جس پر جسٹس علی باقر نجفی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہاں، آپ نے ہسپتال پر حملہ کیا۔ وکلاء کو ہسپتال پر حملہ کرنے کی جرات کیسے ہوئی؟۔ کیا آپ وضاحت دے سکتے ہیں کہ حملہ کیوں کیا گیا؟۔ جسٹس انوار الحق پنوں نے کہا کہ کیا اس کی بھی توقع ہے کہ کوئی بار کونسل اس پر کوئی کارروائی کرے؟۔ جس پر اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم نے ٹی وی پروگرامز میں مذمت کی ہے۔ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ آپکے پروفیشن میں کالی بھیڑیں ہیں۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ ہم کس دکھ میں ہیں۔ ہم بہت مشکل سے اس کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں تو ابھی اس کیس کو ٹرانسفر کر دیتے ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ آپ اس پر وضاحت دے رہے ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ جی ہم مذمت کر رہے ہیں۔ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ آپ سرعام تسلیم کریں کہ آپ نے لاہور بار میں پلاننگ کی۔ اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ہم وکلاء کے خلاف کارروائی کرنے جا رہے ہیں۔ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ ہمیں آپ نے کہیں کا نہیں چھوڑا، ایسا جنگوں میں بھی نہیں ہوتا۔ جسٹس انوار الحق پنوں نے کہا کہ ایک ویڈیو بڑی عجیب سی تھی جس میں کہا گیا کہ یہ ڈاکٹر کی موت ہے۔ واضح رہے کہ وکلاء نے بڑی تعداد میں پی آئی سی پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں مریضوں کو علاج نہ مل سکا اور 5 سے زائد مریض دم توڑ گئے۔ دریں اثناء معلوم ہوا ہے کہ جسٹس محمد انوار الحق پنوں نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر گرفتار وکلا کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔ پولیس نے لاہور ہائیکورٹ میں وکلا کے خلاف انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمات درج ہونے کی رپورٹ پیش کی۔ جسٹس محمد انوار الحق پنوں نے کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے فائل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھجوا دی۔ عدالت کے باہر وکلا کی بڑی تعداد جمع تھی۔ علاوہ ازیں پی آئی سی واقعہ کے حوالے سے وکلاء کے وفد نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے ملاقات کی ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے سینئر وکلاء نے نیا بینچ تشکیل دینے کی درخواست کی، جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں نیا بینچ تشکیل دئیے جانے کا امکان ہے۔ وکلا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران نے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی سے ملاقات کر کے وکلاء کی ہڑتال کے باعث عدالتی امور روکنے کی استدعاکی۔ فاضل جج نے کہا کہ عدالت اپنا کام کرے گی اور یہ میری ذمہ داری میں شامل ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے وکلاء کو مشورہ دیا کہ سینئر اور نوجوان وکلاء پھول لیکر پی آئی سی جائیں۔ اور ڈاکٹرز کو گلے لگا کر معاملہ حل کریں۔ وکلاء پڑھا لکھا طبقہ ہے اور اپنا اچھا تاثر دیں۔ وکلاء رہنمائوں نے استدعا کی کہ پیش نہ ہونے والے وکلاء کے مقدمات عدم پیروی پر خارج نہ کئے جائیں۔ جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ کوئی وکیل پیش نہیں ہونا چاہتا تو اس کی اپنی مرضی ہے۔ مقدمات عدم پیروی پرخارج نہیں کئے جائیں گے۔
لاہور، اسلام آباد، (نیوز رپورٹر،اپنے نامہ نگار سے، نمائندہ خصوصی، وقائع نگار، نمائندگان) لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں وکلاء جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی اپیل پر وکلاء تنظیموں نے سانحہ پی آئی سی کے حوالے سے مقدمات درج کرنے کے خلاف جمعہ کہ دوسرے روز بھی ہڑتال اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور مظاہرے کئے گئے۔ وکلاء کی اکثریت لاہور ہائیکورٹ، سیشن عدالتوں اور ضلعی عدالتوں میں پیش نہ ہوئی، وکلاء ہڑتال کے باعث ہزاروں کیسوں کی سماعت نہ ہوسکی جبکہ عدالتوں میں آئے ہوئے سائلین کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان بار کونسل کی کال پر گوجرانوالہ ،پاکپتن، پیر محل، کلورکوٹ، ننکانہ صاحب اور وہاڑی، بہاولنگر، فیصل آباد، ظفروال میں بھی وکلا نے مکمل ہڑتال کی۔ مقدمات کی سماعت ملتوی ہونے پر دور دراز سے آئے سائلین کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ خیبرپی کے ،حیدر آباد اور لاڑکانہ سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں بھی وکلا نے لاہور پی آئی سی واقعہ پر مقدمات کے اندارج کیخلاف احتجاج کیا۔ ادھر سینئر وکلا رہنماؤں نے پی آئی سی واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کو قومی المیہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے گرفتار وکلا کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔ وکیل رہنما حامد خان نے جاں بحق ہونے والے مریضوں کے لواحقین سے معافی مانگ لی۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں وکلا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس ہوئی۔ پروفیشنل گروپ کے سربراہ حامد خان نے واقعہ پر افسوس اور پی آئی سی میں جاں بحق ہونے والے مریضوں کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا۔حامد خان نے واقعہ کو سازش قرار دیا اور کہا کہ صرف وکلا کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں، ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس کیوکلا پر تشدد سے معاملہ شروع ہوا جو غفلت کی وجہ سے بڑھ گیا، انہوں نے حکومتی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وکلا کی ایف آئی آر درج ہونے میں تاخیر کا ذمہ دار کون ہے؟ وکلا اور ڈاکٹرز کے درمیان مذاکرات کو کس نے سبوتاژ کیا؟ نازک معاملے پر ڈاکٹرز کی ویڈیو کس نے وائرل کی؟ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کچھ طاقتیں ملک میں آمریت لانا اور وکلا کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ سینئر وکیل حامد خان اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر ملک قیوم نے پی آئی سی واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا۔ دوسری طرف پولیس نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) پر حملے میں ملوث وزیراعظم عمران خان کے بھانجے حسان خان نیازی کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر چھاپا مارا۔ تاہم حسا نیازی گھر پر نہیں تھے۔ دو روز قبل لاہور میں دل کے ہسپتال پر ہونے والے وکلاء کے حملے میں وزیراعظم عمران خان کے بھانجے حسان خان بھی پیش پیش تھے۔ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف نے پی آئی سی واقعہ کیخلاف امن ریلی نکالی۔ ریلی پی آئی سی کے ایمرجنسی گیٹ سے شروع ہوئی ڈاکٹرز اور ہسپتال کے عملے نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور موم بتیاں اٹھا رکھی تھیں۔ وکلاء کا گروپ احسن بھون کی قیادت میں اظہار یکجہتی کیلئے ریلی میں شریک ہوا۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں وکلاء کے حملے میں شریک وزیراعظم عمران خان کے بھانجے حسان خان نیازی کی گرفتاری کے حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا مؤقف بھی سامنے آگیا۔ شاہ محمود قریشی نے سوال کیا کہ حسان خان کی گرفتاری میں کس نے رکاوٹ ڈالی؟ پھر کہا کہ حسان نیازی کی گرفتاری پرعمران خان نے کوئی پابندی نہیں لگائی۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے، حسان نیازی سے متعلق جو بھی انتظامیہ بہتر سمجھے فیصلہ کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹرز اور وکلاء کی ہڑتال میں عام پاکستانی پِسیں گیں، ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلے کا مناسب حل نکلنا چاہیے۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی ایمرجنسی کو مریضوں کیلئے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ پی آئی سی کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر ثاقب شفیع نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ ہسپتال کا عملہ پوری ذمہ داری سے اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ ہسپتال کی مرمت کا تمام کام بھی مکمل کرلیا گیا ہے۔ دریں اثناء بائیکاٹ کے باوجود اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنے پر ساٹھ وکلا کی ممبر شپ معطل کر دی گئی ہے۔ جن وکلا کی ممبر شپ معطل کی گئی ان میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ کے نام بھی شامل ہیں۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے بعد لاہور میں وکلاء رہنمائوں نے پی آئی سی کے ڈاکٹرز کے وفد سے ملاقات کی ۔ وکلاء رہنمائوں اور ڈاکٹرز کے درمیان ملاقات کے بعد برف پگھلنے لگی ہے۔ آئندہ چند روز میں وکلاء رہنمائوں اور ڈاکٹرز کے درمیان دوبارہ ملاقات ہوگی۔ وکلاء رہنمائوں کی جانب سے ڈاکٹرز کو پھول پیش کئے گئے۔ وکلاء رہنما احسن بھون نے کہا کہ جو کچھ ہوا اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ وکلاء رہنمائوں نے پی آئی سی آکر بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں پی ایم اے ہائوس میں ہونے والے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ معروف قانون دانوں کا پی آئی سی پر حملہ کی مذمت اور وکلاء میں موجود شرپسند وکلاء کی مذمت معاشرے کیلئے حوصلہ افزاء ہے۔ ہم اس ضمن میں اعتزاز احسن اور احمد رضا قصوری کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اجلاس کی صدارت صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف نظامی نے کی۔ اجلاس میں ڈاکٹر ملک شاہد شوکت جنرل سیکرٹری پی ایم اے لاہور، ڈاکٹر اظہار احمد چوہدری، پروفیسر ڈاکٹر تنویر انور، ڈاکٹر ارم شہزادی، ڈاکٹر واجد علی، ڈاکٹر بشریٰ حق، ڈاکٹر احمد نعیم، ڈاکٹر سلمان کاظمی، ڈاکٹر رانا سہیل، ڈاکٹر طلحہ شیروانی، ڈاکٹر حماد رفیق اور ڈاکٹر عمران شاہ نے شرکت کی۔ عہدیداران نے مطالبہ کیا کہ وہ بار ایسوسی ایشنز جو اس حملے کا دفاع کر رہی ہیں وہ اپنے مؤقف پر نظرثانی کریں اور مجرموں کو قرار واقعی سزا کیلئے محب وطن طبقوں کے ساتھی بنیں اور اپنا کردار ادا کریں۔پنجاب سیف سٹیز ا تھارٹی نے پی آئی سی کیس کی 20گھنٹے کی تمام ویڈیوز پولیس اور متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کردیںجو تفتیش میں مددگار ثابت ہونگی۔ نوشہرہ ورکاں سے نمائندہ نوائے وقت کے مطابق تحصیل بار میں مکمل ہڑتال رہی۔ اس موقع پر صدر بار رانا واجد مقصود، جنرل سیکرٹری بار عمران عارف کھوکھر، چوہدری محمد عاقل ڈھڈی سابق جنرل سیکرٹری بار اور وکلاء رہنما چوہدری محمد کامران اولکھ نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی سی واقعہ میں حکومت اور پولیس نے بزدلانہ رویہ دکھایا۔ سادھوکے سے نامہ نگار کے مطابق پی آئی سی واقعہ کے خلاف وکلاء نے دوسرے روز بھی جی ٹی روڈ پر ٹائر جلا کرٹریفک بلا ک کردی جس سے جی ٹی روڈ پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔

ای پیپر دی نیشن