اسلام آباد(سہیل عبدالناصر) لاہور میں مینار پاکستان پر جلسہ عام کے انعقاد کے ساتھ ہی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی احتجاجی تحریک کا پہلامرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔اپوزیشن کے اتحاد اور عمران خان کی حکومت کے درمیان یہ سیاسی میچ فی الحال برابری پر ختم ہوا۔ پی ڈی ایم کے پاس اپنی کامیابی کے دعوے کیلئے عوامی حاضری کی سند موجود ہے تو وفاقی اور صوبائی وزراء ، جلسوں میں شرکاء کی تعداد کو اپوزیشن کی ناکامی کی دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ لیکن حکومت کیلئے یہ امر بطور خاص باعث اطمینان ہو گا کہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے اس مرحلہ کے دوران سیاسی اعتبار سے نہ تو کوئی بڑی بدمزگی پیدا ہوئی اور نہ ہی سلامتی کے لحاظ سے کوئی سانحہ رونما ہوا۔ ماضی کے المناک واقعات کے پیش نظر ، احتجاجی تحریک کے آغاز سے ہی خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ خدانخواستہ، مزید کوئی خونی واقعہ نہ رونماء ہو جائے لیکن الحمد اللہ کہ حالات بہتر رہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جلسوں کے انعقاد کی راہ میں رکاٹ نہ ڈال کر دانش مندی کا مظاہرہ کیا ۔اس احتجاجی مرحلہ کے دوران بعض شہروں میں پولیس نے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کی لیکن بہر حال، یہ سلسلہ روک دیا گیا۔ پی ڈی ایم کی طرف سے مولانا فضل الرحمٰن نے لاہور کے جلسے میں جنوری کے اواخر یا فروری کے اوائل میں اسلام آباد کی طرف لانگ مار اور وہاں استعفے پیش کرنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن اس دوران حالات کو سمجھنے اور مقابلہ کرنے کی حکمت عملی وضع کرنے کیلئے وفاقی حکومت کے پاس ڈیڑھ ماہ کی معقول مدت موجود ہے۔یہی مدت پی ڈی ایم کیلئے زہر قاتل بھی ہو سکتی ہے کیونکہ جلسوں اور ریلیوں کا مرحلہ تو ختم ہو چکا ہے۔ لانگ مارچ کا اعلان ہو گیا ہے۔ اس فیصلہ کن مرحلہ کیلئے کارکنوں کو متحرک رکھنا اور ان کا خون گرمائے رکھنا جائے شیر لانا ہو گا۔ اسی مسلہ کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے بعض قائدین خصوصاً اے این پی کے میاں افتخار ضلعی سطح پر ، جلسے جلوسوں کی تجویز پر زور دیتے رہے ہیں۔ اپوزیشن کا لانگ مارچ وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ نئے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی صلاحیتوں کا امتحان ہو گا۔ وزیر داخلہ کی حثییت سے اب وہ وزیر اعظم عمران خان کے لشکر کے ہراول دستے کے قائد ہیں ۔شیخ رشید احمد سے زیادہ پاکستان کی سیاسی حرکیات کو جاننے والے کم ہی ہوں گے۔ دیکھنا ہے کہ اپنی اس سوجھ بوجھ کو وہ لانگ مارچ ناکام بنانے کیلئے کس طرح بروئے کار لائیں گے،؟ کچھ ذریعوں کا دعوٰی ہے کہ ملک کی ہئیت مقتدرہ، اس سیاسی کشاکش میں غیر جانبدار ہے۔ اپوزیشن کے جلسے جلسوں کا شیڈول کے مطابق انعقاد، میڈیا پر کوریج اور سب سے بڑھ کے سلامتی کے نادیدہ اقدامات کو ان دعووں کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔لاہور کے جلسے میں پی ڈیم کے قایدین نے وہی کچھ کہا جو اپوزیشن راہنماء، احتجاجی تحریکوں کے دوران کہتے ہیں ۔ یہ تقاریر، متوقع اور حسب حال تھیں لیکن پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی کو ایک قومی فورم ملنے کے باوجود، ان کے تعصبات ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔لاہور کے جلسے میں ان کی تقریر، مستند تاریخی حوالوں، شائستگی اور سیاسی آداب کے قطعاً خلاف تھی۔پی ڈیم کو چھوڑ جانے والے، پی ٹی ایم کے جوان سال راہنماء اور ایم این اے محسن داوڑ ، اچکزئی سے کہیں زیادہ دانا ثابت ہوئے۔