لاہور (تجزیہ۔ ندیم بسرا) پاکستان میں حکومت اور پی ڈی ایم دونوں نے طے کر لیا ہے کہ وہ اپنے اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہونگے۔ اس صورتحال میں کیا ان دونوں کے موقف میں لچک یعنی ’’مذاکرات ‘‘ کی میز پر آنا ممکن ہو گا! تو کہا جاتا ہے کہ ’’سیاست‘‘ میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ ہمیشہ لچک اور درمیانے راستے نکلتے رہتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان ’’مفاہمت‘‘ کا کردار ادا کون کرے گا؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔ مگر وہ دن جس کے بارے میں ’’پی ڈی ایم‘‘ اور خصوصا مسلم لیگ (ن) نے بلند بانگ دعویٰ کیا تھا کہ لاہور کا جلسہ ہی ثابت کرے گا کہ حکومت کے دن کتنے رہ گئے ہیں توگزشتہ روز لاہور کا جلسہ ہوگیا۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اس جلسے کو کامیاب کرنے کے لئے درجنوں کے قریب ریلیاں اور کارنر میٹنگز اور جلسے کئے اور لاہور کے سبھی علاقوں میں خود جاکر لوگوں کو اس جلسے میں آنے کی دعوت دی اور (ن) لیگ کی مرکزی قیادت کو انہوں نے چوبیس گھنٹے مصروف رکھا اور اپنی سوشل میڈیا کی ٹیم چوبیس گھنٹے فعال رکھی۔ مریم نواز نے 13 دسمبر کے جلسے کو یادگار بنانے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے جوش کو تازہ کئے رکھا تاکہ لاہور کا جلسہ پی ڈی ایم کے پشاور، گوجرانوالہ، کراچی، کوئٹہ اور ملتان کے جلسوں پر سبقت لے جائے۔ اس کے لئے مسلم لیگ (ن) نے ملک بھر سے اپنے کارکنوں کو لاہور میں شرکت لازمی قرار بھی دیا اور اس جلسے کے لئے ملک کے طول وعرض سے کارکنان کو بلوایا گیا مگر اتوار والے روز لاہور میں یہی دیکھا گیا کہ کارکنان صرف ’’ٹولیوں‘‘ کی شکل میں جلسے کی طرف آئے۔ پورے روز کوئی بڑا کارواں اس جلسے کی کشش کو اپنی طرف مائل نہ کرسکا اور اتنی کوششوں کے باجود جلسہ گاہ ہی بھر سکا۔ اصل میں ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ اتوار تیرہ دسمبر کے جلسے کے چاروں اطراف مینار پاکستان کے پیچھے منٹو پارک، بادامی باغ، راوی روڈ اور بھاٹی چوک یعنی داتا دربار تک لوگوں کا جم غفیر ہوتا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ لاہور کے جلسے کی میزبان مسلم لیگ (ن) صرف جلسہ گاہ ہی بھرنے میں کامیاب ہوسکی۔ وہ تصور کہ لوگ سڑکوں پر کھڑے ہوکر اپنے ہر دلعزیز لیڈروں کی دلچسپ تقریروں کو سنیں گے ایسا منظر نظر نہیں آیا۔ منٹو پارک، بادامی باغ، راوری روڈ اور بھاٹی چوک یعنی داتا دربار پر تقریروں کو سننے والے شہری نہیں آئے۔ مریم نواز نے اپنی تقریر میں جس طرح اداروں کے سابق سربراہوں کو نام لیکر ہدف کا نشانہ بنایا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اداروں کو ٹارگٹ کرکے اپنے گراف کو کم کررہی ہیں۔ عوام میں مقبول ہونے کا یہ طریقہ پاکستان میں کبھی نہیں رہا۔ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر میں حکومت کو جہاں تنقید کا نشانہ بنایا وہیں انہوں نے عوامی مسائل کی طرف توجہ دلوائی۔ انہوں نے جمہوریت کے لئے دی گئیں پیپلز پارٹی کی قربانیاں عوام کو یاد دلائیں۔ انہوں نے اسلام آباد لانگ مارچ کا سفر شروع کرنے کا اعلان بھی واضح کردیا۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ 2011 عمران خان کا پہلا جلسہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں تازہ اور یادگار رہا ہے۔ اس جلسے کے بعد یہ کہا جائے کہ حکومت پر دبائو نہیں ہوگا تو یہ بھی کہنا حقیقت کے برعکس ہوگا۔ حکومت پر دبائو تو یقیناً بڑھ گیا ہے مگر حکومت اس جلسے کے بعد فوراً ختم ہوجائے گی یہ بھی ایک مذاق ہی لگتا ہے۔ کیا اب لاہور کے جلسے اور سیاسی تصادم کے بعد قوم کی حالت زار بہتر ہوجائے گی۔ کیا عوام کے مہنگائی، بے روزگاری، نوکریوں کے مسائل فوری حل ہونگے؟۔ ملک ترقی کی طرف نکل پڑے گا؟۔ یقیناً ایسا نہیں ہوگا کیونکہ پی ڈی ایم کی تحریک کی عوامی مسائل کا حل اولین ترجیح نہیں بلکہ ان کی تحریک کا ایک ہی مقصد ہے کہ موجودہ حکومت کو گرادیا جائے۔ اس کے بعد ان کا مقصد کیا ہو گا اور کیا ا نہوں نے آئندہ کا لائحہ عمل عوام کے سامنے رکھا ہے۔ عمران خان کی حکومت جانے کے بعد کونسی ایسی حکومت وجود میں آئے گی جس سے پاکستان کا مستقبل تابناک ہوگا؟۔ ان کی تقریروں میں ایسا کوئی لائحہ عمل نہیں دیا گیا۔ ان کی تحریک کا مقصد تو عمران خان کی حکومت کو چلتا کرنا اور اس کے بعد کا ایجنڈا ان کے پاس موجود نہیں ہے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی پی ڈی ایم اپنا مستقبل کا ایجنڈا عوام کو جلسوں میں نہیں دی سکی۔ اس کی وجہ تو یہی لگ رہی ہے کہ پی ڈی ایم کی گیارہ جماعتوں کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے۔ وہ اس تحریک کے بعد ایک دوسرے کی دوبارہ حریف بن جائیں گی۔ کیونکہ نہ تو پیپلز پارٹی سندھ حکومت سے استعفی دے گی نہ قومی اسمبلی سے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس جلسے کے بعد پی ڈی ایم وفاقی دارالحکومت کی طرف لانگ مارچ اور دھرنے تک جائے گی اور اس کے بعد اگر مشترکہ استعفے فروری کے وسط تک آبھی جاتے ہیں تو کیا حکومت اپنا بزنس چلا سکے گی۔ استعفوں کی بارش سے ملک کا سیاسی نظام تباہی کی طرف جائے گا اور ایسا خلا سیاسی فضا میں پیدا ہوگا جس کو یہ گیارہ جماعتیں پر نہیں کر پائیں گی اور اس کا الزام پھر کس کے سر ہوگا۔ اس وقت عوام بھی بے بسی کی تصویر نظر آئیں۔ اس لئے ضروری یہ ہے کہ پی ڈی ایم اپنا کیس اسمبلی کے فورم پر لیکر جائے اور سیاسی مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرے کیونکہ اسمبلیاں وقت سے پہلے تحلیل کرنے کی روایت کو دفن کرنا چاہئے۔ جمہوری روایات کی پاسداری کرنے سے ہی ملک کی تقی اور بقاء جڑی ہوئی ہے۔ اسمبلیوں میں بیٹھ کر حکومت کے عوامی مفاد کے خلاف کاموں کو ہدف تنقید بنایا جائے تاکہ عوام کی یہ سیاسی جماعتیں عوام میں ان کاموں کے باعث مقبول ہو سکیں نہ کہ غیر جمہوری روایات کی بنیاد ڈال کر ملک کو ترقی کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جائے۔
حکومت پی ڈی ایم ڈٹ گئے،مذکرات سوالیہ نشان،جلسہ گاہ بھر گئی،اطراف خالی
Dec 14, 2020