برطانیہ میں کرونا ویکسین کا استعمال شروع ہو گیا ہے جبکہ اندازہ ہے کہ امریکہ میں بھی جنوری 2021 سے کرونا ویکسین مہیا کر دی جائے گی امریکہ کے صدر ٹرمپ کی کوشش ہے کہ دسمبر میں ہی کرونا ویکسین 70سے پلس لوگوں کو فراہم کی دی جائے لیکن دنیا کے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا ابھی ختم نہیں ہو گا اس کی 100فیصد ویکسین آنے میں مزید ایک سال لگ سکتاہے ابھی بھی جو ویکسین برطانیہ میں لوگوں کو لگائی جا رہی ہے وہ 70 فیصد اثر کر تی ہے جبکہ امریکہ کے پاس بھی 80 سے 90فیصد اثر کرنے والی کرونا ویکسین موجود ہے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ابھی تک دنیا میں جتنی بھی کرونا ویکسین تیار ہوئی ہیں ان کا اثر انسانی جسم میں 3سے6ماہ تک ہی رہتا ہے اس کے بعد انسان دوبارہ کرونا کا شکار ہو سکتاہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ کرونا پر میڈیکل ریسرچ اب مزید بہتر ہونا شروع ہو گئی ہے اور کہا جا رہاہے کہ اس کی میڈیسن تیار کر لی جائے گی ایک اہم پہلو پر بھی پیشرفت ہو رہی ہے انسان کے وینٹی لیٹرپر جانے کے بعد اسکے جسم میں موجود درجنوں بیماریوں کے جراثیم محترک ہو جاتے ہیں جبکہ پہلے سے موجود بیماریوں کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ کرونا وینٹی لیٹر پر جانے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ مر جاتے ہیں اب ایسی ادویات بنانے کی ضرورت ہے جس سے اول تو کرونا کا مریض وینٹی لیٹر پر نہ جائے جو مریض ڈاکٹر وینٹی لیٹر پر لے جائیں اس کی میڈیکل ہسٹری دیکھ کر فیصلہ کیا جائے پاکستان میں اول تو 99.99فیصد افراد کے پاس میڈیکل ہسٹری موجود ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر کسی مریض کو میڈیکل ہسٹری رکھنے کا کہتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں وینٹی لیٹر پر جانے والے 85فیصد افراد کرونا کی بجائے دیگر بیماریوں سے مر جاتے ہیں مطلب کرونا سے مرنے والوں کی تعداد 15فیصد ہے جبکہ کرونا کی پیچیدگی کی وجہ سے وینٹی لیٹر پر جا کر دیگر بیماریوں کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 85فیصد ہے لیکن انہیں کرونا میں ہی ڈالا جاتا ہے موجودہ طبی تحقیق نے واضح کر دیا ہے کہ مرنے کے بعد انسانی جسم میں کروناوائرس 5سے7گھنٹے رہتاہے اس کے بعد ختم ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اب کرونا سے یا کرونا کی وجہ سے دیگر بیماریوں سے وفات پا جانے والوں کی ڈیڈ باڈی پوری دنیا میں لواحقین کو کچھ گھنٹوں کے بعد فراہم کر دی جاتی ہے ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس یعنی 2020میں کرونا وائرس کی تحقیق پر پوری دنیا میں 150ارب ڈالرز خرچ ہوئے جبکہ150ارب ڈالرز کے کرونا ریسرچ پروجیکٹ ابھی بھی چل رہے ہیں مطلب دنیا میں پاکستان کی ٹوٹل GDPجتنے پیسے صرف ایک سال میں کروناوائرس کی تحقیق پر خرچ کر دئیے لیکن کرونا اور پھر کرونا کے خوف نے عالمی معیشت کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کا اثر ایک دہائی تک محسوس کیا جاتا رہے گا دنیا میں انسانوں کی جانوں سے زیادہ کرونا لوگوں کے کاروبار اور نوکریاں نکل گیا ہے صرف اکیلے لندن کی روایتی کالی ٹیکسیاں نصف رہ گئی ہیں اگر لندن کے مضافات میں جائیں تو کھیتوں میں ہزاروں کالی ٹیکسیاں بمپر ٹو بمپر کھڑی نظر آئیں گی اور ایسا پوری دنیا میں ہوا ہے یہ جو پاکستان میں کہا جا رہاہے کہ بیرون ملک سے پاکستانی پہلے کی نسبت زیادہ پیسے بھیج رہے ہیں یہ ایک دھوکہ ہے حالت یہ ہے کہ پاکستان میں سات فیصد بنک منافع دے رہے ہیں پوری دنیا میں دو فیصد پر بنک قرض دیتے ہیں پوری دنیا میں پاکستانی 2فیصد پر قرض لے کر پاکستان کے بنکوں میں 8فیصد پر جمع کروا رہے ہیں یہی وہ دھوکہ ہے جس کی وجہ سے لگ رہاہے کہ ملک میں ڈالرز کی برسات ہو رہی ہے حقیقت میں یہ بہت مہنگا قرض ہے جو اورسیز پاکستانیوں سے لیا جا رہاہے اس وقت اورسیز پاکستانیوں کا پیسہ نہ رئیل اسٹیٹ میں جا رہاہے نہ کسی بزنس میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے اور نہ ہی کسی بنک میں جمع ہو رہاہے یہی وجہ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر تو بڑھ رہے ہیں لیکن ملک میں کاروباری جمود اور کساد بازاری ہے ایکسپورٹ میں کچھ چارمنگ نظر آ رہی ہے لیکن کیا مستقل رہے گی اس پر حتمی کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
اب ایک نظر کاٹن مارکیٹ پر گزشتہ ہفتہ امریکہ کے ڈپارٹمنٹ اف ایگری کلچر نے ورلڈ پیداوار رپورٹ جاری کی جس کے مطابق دنیا میں 20لاکھ 10ہزار بیلز(1.90)فیصد کی کمی جبکہ کھپت میں 15لاکھ 80ہزاربیلز(1.39)فیصد کا زبردست اضافہ بتایا گیا ہے اوپننگ اور اینڈنگ اسٹاک بھی بالترتیب 0.17ملین اور 3.92ملین کم رہا دنیا بھر میں کاٹن کے کاروبار میں اضافہ بتایا گیا اور کاٹن کھپت میں مسلسل اضافے کی نشاندہی کی گئی پاکستان کی پیداوار اور کھپت کے بارے میں امریکی ڈپارٹمنٹ اف ایگری کلچر نے 10فیصد کمی جبکہ کھپت میں2.04فیصد اضافہ بتایا بھارت کی پیداوار میں 1.67فیصد کمی جبکہ کھپت 4.35فیصد اضافہ ہوا امریکہ کی پیداوار میں 6.67فیصد کی زبردست کمی جبکہ چائنا کی کھپت میں 1.33فیصد کا اضافہ ہوا کل ڈالر انڈیکس میں کمی اور چائنا کی زبردست خریداری کے باعث مضبوط ایکسپورٹ سیل رپورٹ اور بہت ہی مضبوط سپلائی اینڈ ڈیمانڈ ڈیٹا ایشو ہونے کے باعث نیو یارک کاٹن گذشتہ 20ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تاجروں پر ہاوی کرونا کا خوف کم ہوا جس سے کاروباری والیم بھی بڑھا مزید تیزی متوقع کل USDAنے اپنی جینگ رپورٹ بھی شائع کی جس میں امریکہ نے یکم دسمبر تک اپ لینڈ کاٹن 93لاکھ 56ہزار 450بیلز جبکہ امریکن پیما 2لاکھ 13ہزار 900بیلز کی جینگ مکمل کی جو گذشتہ سال کے اسی عرصے کی نسبت 33لاکھ 44ہزار بیلز کم ہیں ان تمام رپورٹس کے بعد پاکستان میں جو تیزی متو قع تھی وہ نہ ہو سکی پہلے نمبر پر KCAکا سپاٹ ریٹ 100روپے کم ہو کر 9400رہ گیا جبکہ مقامی مارکیٹ میں قدرے سست کام ہوئے جس کی ایک وجہ دسمبر کلوزنگ ہے دوسری امپورٹ آرڈرز میں کمی ہے تمام اقسام کے دھاگوں میں تیزی رہی لیکن امریکہ اور یورپ میں کرونا کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں نے کاروباری طبقہ کو تشویش کا شکار رکھا جبکہ بے یقینی بھی موجود رہی حقیقت یہ ہے کہ کاروبار سے اعتماد لگ بھگ ختم ہو تا جا رہاہے کرونا کی کونسی کی خبر کس ملک کے لاک ڈائون کی اطلاح کیا کر دے یہ خوف مارکیٹ میں موجود ہے PCGAجو کپاس کے اعدادو شمار جاری کر رہاہے اس کے مطابق پاکستان میں 37فیصد کراپ سائز گذشتہ سال سے کم ہے جبکہ امریکی ڈپارٹمنٹ اف ایگری کلچر اپنی ورلڈ رپورٹ میں پاکستان میں صرف 10فیصد کپاس کم بتا رہاہے یہ بات قابل غور اور تشویش ناک ہے پاکستان میں کاٹن کے سٹیک ہولڈرز کو اس کا لازمی جائزہ لینا چاہیے یاد رہے کہ پاکستان میں کاٹن پر 10فیصد سیلز ٹیکس لگا ہواہے اور یہ بہت بڑا ٹیکس ہے اور اس ٹیکس کی ادائیگی کے بعد ایک بڑی رقم کاروبار سے نکل جاتی ہے اب جو PCGA کپاس آمد کا جو ڈیٹا دیتاہے وہ قابل ٹیکس کپاس کا ہوتاہے کیا پاکستان میں کاٹن کے ایک بڑے حصے کا کاروبار نظروں سے اوجھل ہے یہ خاصی معنی خیز صورتحال ہے جس پر خود حکومت کو بھی توجہ دینا ہو گی کیونکہ کچھ بھی خلاف فطرت ہو وہ چل نہیں سکتا کاٹن پر 10فیصد سیلز ٹیکس پر نظر ثانی ہونا ضرروی ہے ۔