سیاچن اور کارگل کی لڑائیاں

Dec 14, 2020

سیا چن گلیشئر کشمیر میں پاکستان ہندوستان اور چین کی سرحد پر  ہے اس گلیشئر کی لمبائی 47میل ہے اور یہ اپریل 1984 سے دنیا کا بلند ترین اور سردترین میدان جنگ بنا ہوا ہے ۔آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیرکے درمیان 1949کی سیز فائر لائن جو 1971کے بعد کنٹرول لائن کہلاتی ہے گلیشئر پر آکر ختم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد معاہدوں میں لکھا ہے کہ یہ آگے گلیشئر کے شمال تک جاتی ہے لیکن کوئی لائن موجود نہیں اور اس کو ورچول بائونڈری بھی کہا جاتا ہے پاکستان اس گلیشئر کے علاقے کو ہمیشہ اپنا علاقہ سمجھتا رہا ہے ۔60کی دہائی کے بعد بین الاقوامی کوہ پیما پاکستان سے اجازت لے کر پاکستان کی طرف سے مختلف مہمات پر جاتے رہے ہیں 1970میں امریکہ کے فوجی نقشہ جات کے محکمہ نے لائن آف کنٹرول کو درہ قراقرم تک دکھایا جس کے مطابق یہ سارا علاقہ پاکستان میں شامل ہے ۔یہی نقشہ دنیا بھر کی اٹلیسوں میں چھپتا رہاہے ۔اب ہندوستان کا موقف ہے کہ نقشے بنانے میں غلطی ہوئی ہے ۔
1983کے آخری مہینوں میں پاکستان کو معلوم ہو ا کہ ہندوستان کے فوجی گلیشئر پر کیمپ وغیرہ لگاتے ہیں پرویز مشرف اس وقت کرنل تھے انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان اور گلیشئرکے درمیان کوہ قراقرم کی ایک شاخ سالٹورو رینج (SALTORO RANGE)  کے سلسلے ہیں جن کی چوٹیاں اور درے 16سے 20ہزار فٹ بلند ہیں ان چوٹیوں دروں سے گلیشئر کا سارا علاقہ کنٹرول کیا جا سکتا ہے ۔پاکستان کو جب یہ اندازہ ہو اکہ ہندوستان گلیشئر پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو پاکستان نے ان چوٹیوں اور دروں پر فوجی پوسٹیں بنانے کا فیصلہ کیا۔پاکستان نے سردی کی شدت کم ہونے پر مئی1984 میں وہاں فوجی بھیجے تو پتہ چلا کہ اہم چوٹیوں اور دروں پر ہندوستانی فوج پہلے ہی قبضہ کر چکی ہیں ۔پاکستان نے کچھ دوسری چوٹیوں اور دروں پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد ان دروں اور چوٹیوں پر قبضہ کی جھڑپیں ہو تی رہی ہیں ہندوستانی فوجیں وہاں پہلے کیوں پہنچ گئیں اس بارے ایک دلچسپ بات مشہور ہے ۔ہندوستان برطانیہ کی ایک فرم سے سخت سرد موسم میں استعمال کا لباس وغیرہ خریدتا تھا انہیں معلوم ہوا کہ پاکستان نے بھی انہی اشیاء کا ایک بڑا آرڈر دیا ہے تو ان کو اندازہ ہو گیا کہ پاکستان کیا کرنے والاہے۔ اس طرح انہوں نے پاکستان سے چند روز پہلے وہاں قبضہ کر لیا پاکستان میں عام تاثر یہ ہے کہ گلیشئر کا کچھ حصہ پاکستان اور کچھ حصہ ہندوستان کے قبضہ میں ہے اور گلیشئر کے اوپر لڑائی ہوتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ سیا چن کا پورا علاقہ تقریباََ 1ہزار مربع میل علاقے پر ہندوستان کا قبضہ ہے اور لڑائی سولٹوروپہاڑ کے دروںاور چوٹیوں کے قبضے کے لیے ہوتی ہے ۔
جب ہندوستان نے گلیشئر پر قبضہ کر لیا تو پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق نے اس کی اہمیت کم کرنے کے لیے بیان دیا تھا کہ وہاں تو گھاس بھی نہیں اگتی ۔ایک مشہور امریکی صحافی نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ سیا چن کی لڑائی ایسی ہے جیسے دو گنجے ایک کنگھی کے لیے لڑ رہے ہوں ۔لیکن ہندوستان بہت بڑے اخراجات کرکے اس قبضہ کو قائم رکھے ہوئے ہے کیونکہ اس کا خیال ہے اگر پاکستان کا وہاں قبضہ ہو جائے تو وہاں رڈار لگا کر لداخ اور ہندوستان کے چین کے ساتھ بارڈر کو مانیٹر کر سکتاہے ۔پاکستان آرمی سقوط ڈھاکہ کے بعد اس کو اپنی سب سے بڑی شکست تصور کرتی ہے اور اہم چوٹیوں اور دروں پر قبضہ کے لیے جھڑپیں ہوتی رہی ہیں ۔ان جھڑپوں میںپرویز مشرف نے بھی حصہ لیا۔ درحقیقت کارگل کی لڑائی بھی سیاچن کا بدلہ لینے اور اس پر قبضہ کرنے کا پلان تھا ۔یہ جنرل مشرف کا پلان تھا جس کے نتیجے میں کشمیر ایک نیوکلیئر فلیش پوانٹ کے طور پر ضرور اجاگر ہو الیکن اس سے نہ صرف پاکستان پر دنیا بھر سے سفارتی پریشر آیا بلکہ پاکستان میں نواز شریف کی جمہوری حکومت الٹ کر فوجی آمریت مسلط ہو گئی۔
جنرل مشرف اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ 1999کے شروع میں پاکستان کو انٹلیجنس کے ذریعے معلوم ہو اکہ ہندوستان ناردرن ایریاز میں لائن آف کنٹرول کے پار حملے کی تیاری کر رہا ہے ۔اس کی وجہ سے پاکستان آرمی نے لائن آف کنٹرول کے اس علاقے میں مزید فوجی چوکیاں بنا لیں اور کارگل سیکٹر میں اس کاروائی کے دوران معلوم ہو اکہ کشمیر حریت پسندوں نے کارگل میں پہاڑی چوٹیوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور ہندوستان سے ان کی جھٹرپیں ہو رہی ہیں پاکستان کی افواج نے حریت پسندوں کی مدد کے لیے خود بھی مورچے بنا لیے ۔اس طرح فوج ایسی پہاڑیوں اور چوٹیوں پر قابض ہو گئی جہاں سے مقبوضہ کشمیر کی ایک شاہراہ جو سرینگر سے کارگل اورپھر آگے لداخ کے مرکزی شہر لہہ (LEH)اور پھر سیا چن کو جاتی ہے ۔اس طرح اس سڑک کا کنٹرول حاصل کرنے سے ہندوستان کا رابطہ لداخ اور سیا چن سے کٹ جاتا ہے  یہ صورتحال ظاہر ہے کہ ہندوستان کے لیے قابل قبول نہ تھی ۔ہندوستان نے ان پہاڑیوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں موجو د فوج کا بڑا حصہ وہاں طلب کر لیا اور نہ صرف انفنٹری بلکہ بھاری توپ خانہ سے حملہ کیا اوران کی فضائیہ نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ہندوستان کو کافی جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا کیونکہ حریت پسند اور پاکستان افواج بہتر پوزیشن میں بیٹھی تھی اور نہایت جذبے سے لڑ رہی تھیں۔ہندوستان کے دو جنگی جہاز اور ایک ہیلی کوپٹر بھی مار گرایا گیا ۔لیکن ہندوستان نے اتنی بڑی تعداد میں افواج اور اسلحہ یہاں جھونک دیا کہ جنرل مشرف لکھتے ہیں ہندوستا ن اب بقیہ لائن کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پر دفاع کے قابل نہ رہا تھا۔لیکن عددی برتری کی وجہ سے ہندوستان کچھ چوکیاں اور چوٹیاں پاکستان سے واپس لینے میں کامیاب ہو گیا ۔ اس دوران پاکستان پر شدید بین الاقوامی سفارتی دبائو پڑنا شروع ہو گیا کیونکہ لائن آف کنٹرول پاکستان افواج نے پا ر کی تھی ۔پاکستانی حکومت اس دبائو کا موثر مقابلہ نہ کر سکی کیونکہ جنرل مشرف نے یہ پلان صرف چند جرنیلوںسے مل کر بنایا تھا اور حکومت کو اس کی کوئی اطلاع نہ تھی ۔جنرل مشرف تو لکھتے ہیں کہ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کو کئی مرتبہ اس بارے اعتماد میں لیا لیکن ان کی یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ انہوں نے تو نیوی اور فضائیہ کے سربراہوں کو بھی اعتماد میں نہ لیا تھا ۔اگر وزیر اعظم کو اعتماد میں لیا ہوتا اور ان کی مرضی سے یہ مہم شروع ہوتی تو تمام مسلح افواج مربوط طریقہ سے اس میں حصہ لیتیں۔
اس جنگ کے دوران امریکہ کی انٹلیجنس ایجنسی نے اطلاع دی کہ انہون نے پاکستان اور ہندوستان کے ایٹمی میزائلوں کی نقل و حرکت نوٹ کی ہے ۔اس سے دنیا میں کھلبلی مچ گئی اور پھر نواز شریف کو امریکی صدر سے واشنگٹن میں ملاقات کر کے پاکستانی افواج کو کارگل سے باہر بلانے کا عندیہ دینا پڑا۔ پرویز مشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ نواز شریف نے امریکہ جاتے ہوئے مجھے ائر پورٹ پر بلا کر پوچھا تھا کہ کیا ہمیں جنگ بندی قبول کر لینی چاہیے تو میں نے جواب دیا تھا کہ فوجی طور پر ہماری پوزیشن مضبوط ہے لیکن فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے پرویز مشرف کارگل کی لڑائی کو اپنی بہت بڑی کامیابی سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ نواز شریف حکومت پریشر برداشت نہ کر سکی اور جنگ بندی قبول کر لی لیکن اکثر فوجی اور سیاسی مبصرین کی رائے میں یہ ایک ایسی مہم تھی جس کی نہ سیاسی تیاری تھی اور نہ ہی فوجی تیاری مکمل تھی ۔   

مزیدخبریں